میانمار میں بحران میں اضافہ
11 مئی 2008انگلستان کے ایک امدادی ادارے آکسفیم نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ ہے اور اگر متاثرین کے لئے فوری طور پر پینے کے صاف پانی اور دیگر امدادی اشیا کا انتظام نہیں کیا جاتا تو مرنے والوں کی تعداد پندرہ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
جرمن چانسلر اینگلہ میرکل نے اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون سے کہا ہے کہ ینگون فوجی حکومت سے رابطوں مین تیزی لائی جائے تاکہ متاثرین کی بر وقت مد دکی جا سکے۔
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائین مائر نےکہاکہ امدادی کارکنان جو میانمارکی سرحدوں پر ، ویزے کے منتظر ہیں انہیں ویزا دےدیاجائے تاکہ امددای کاموں میں خلل نہ پڑے۔ انہوں نے ینگون حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیاکہ وہ امدادی تنظیموں سے تعاون کرے۔
میانمار مین آٹھ روز قبل آنے والے اس تباہ کن سمندری طوفان نے لوگوں کی زندگی تباہ کر کے رکھ دی ہے ۔
سیو دی چلڈرن کے رکن انڈریو کرک وڈ نے میانمار میں امدادی کاموں کے حوالے سے صحافیوں کو بتایا کہ اتوار کے دن بھی اقوام متحدہ کے دو امدادی طیاروں اور دو ٹرکوں کو متاثرین تک روانے کرنے میں ان کی مدد کی گئی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس امدادی کھیپ میں خوارک ، ادویات اور دیگر اہم چیزیں شامل تھیں۔
کرک وڈ نے کہا ہے کہ ابھی تک امدادی کاموں میں کوئی ربط نہیں آ سکا ہے ۔ اور متاثرین تک امداد پہنچنے میں دقت پیشآرہی ہے ۔ اور امداد کے منتظر افراد ادویات ، خوارک اور صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے مر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ متاثرہ علاقے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں لیکن بے گھر ہونے والوں کی تعداد کتنے لاکھ ہے یہ وہ نہیں جانتے ۔
میانمار میں متاثرین تک پینے کا صاف پانی ، خوراک اور طبی امداد نہ پہنچنے کے نتیجے میں صورتحال اورزیادہ خراب ہو سکتی ہے ۔
امدادی تنظیم ، ورلڈ وژن انٹرنیشنل کے سربراہ جے کمار موہن نے کہا ہے کہ انہیں اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ متاثرین میں ڈائیریا کی وبا پھوٹ رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس قدرتی آ فت کے بعد امدادی ٹیموں کو چاہیے کہ وہ بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنائیں۔
دوسری طرف سمندری طوفان سے تباہ حال میانمار فوجی حکومت نے ملک کے نئے آ یئن کی منظوری کے لئے کروائے جانے والے ریفرنڈم کوصرف شدید آفت زودہ علاقوں میں ملتوی کیا۔ جب کے باقی ملک میں دس مئی کو ریفرنڈم ہوا۔ فوجی حکومت کے مطابق ملک کے نئے آ ئینکی منظوری کے حق میں سو فیصد ووٹ ڈالے گئےہیں۔ جنتا فوجی حکومت کے مطابق ملک کے نئے آیئن کے لئے کروائے جانے والے ریفرنڈم میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عوامی طور پر نئے آئین کی منظوری کے بعد ملک میں فوجی حکومت کو مزید مضبوطی ملے گی۔
اس سے قبل عالمی برادری نے ینگون حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ سمندری طوفان کے بعد مچنے والی تباہی کے نتیجے میں اس ریفرنڈم کو ملتوی کر کے متاثرین کی امداد پر توجہ دی جائے۔ تاہم فوجی جنتا حکومت نے ایسے تمام مطالبات رد کر دئے ۔ بہرحال اس وقت عالمی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر اس قددتی آفت کے بعد امدادی کاموں میں خلل پڑا یا ڈالا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔