1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار حکومت راکھین اسٹیٹ تک رسائی دے، امدادی ادارے

عاطف توقیر
28 ستمبر 2017

عالمی امدادی اداروں نے میانمار کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انہیں راکھین ریاست میں تشدد سے متاثرہ علاقوں تک مکمل رسائی دے۔ گزشتہ ماہ کی 25 تاریخ سے اس ریاست میں میانمار کی فوج نے آپریشن شروع کر رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/2kqbw
Bangladesch Biometrische Registrierung von Rohingya-Flüchtlinge
تصویر: DW/M. Mostqfigur Rahman

امدادی اداروں کے مطابق راکھین ریاست میں حالیہ پرتشدد واقعات کے تناظر میں چار لاکھ اڑسٹھ ہزار روہنگیا افراد ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں، تاہم اب بھی ہزاروں افراد ایسے ہیں، جو متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں خوراک، چھت اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔

روہنگیا کی شہریت کا معاملہ حل طلب ہے، اقوام متحدہ

میانمار کی حکومت متاثرہ علاقے اپنے قبضے میں لے لے گی

بنگلہ دیش میں مساجد کی تعمیر، بیس ملین ڈالر کی سعودی پیشکش

میانمار کی فوج کی جانب سے تازہ عسکری مہم 25 اگست کو روہنگیا مسلم عسکریت پسندوں کی جانب سے سکیورٹی چوکیوں پر حملوں کے بعد شروع کی گئی تھی۔ اس کے بعد حکومت نے راکھین میں کام کرنے والے بین الاقوامی امدادی اداروں کو ’سلامتی کے خطرات‘ کا عذر پیش کر کے کام سے روک دیا تھا، جب کہ اقوام متحدہ کے اداروں کو بھی متاثرہ علاقوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

بدھ ستائیس ستمبر کے روز امدادی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’میانمار میں بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیموں کو راکھین ریاست میں پھنسے افراد تک رسائی کی اجازت نہ ملنا اور وہاں انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں کی اجازت دینے سے انکار شدید تشویش کی بات ہے۔‘‘

امدادی اداروں کیئر انٹرنیشنل، آکس فیم اور سیو دی چلڈرن کے مطابق تشدد کی اس تازہ لہر کے باعث داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد نامعلوم ہے، جب کہ سینکڑوں ایسے افراد ہیں جو خوراک اور پانی، چھت اور طبی سہولیات سے محروم ہیں۔

ان امدادی اداروں کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہم میانمار کی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں راکھین ریاست میں موجود تمام افراد تک انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ہنگامی امداد کی ترسیل کی مکمل اجازت دی جائے۔‘‘

بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب

ملکی حکومت نے میانمار کی ریڈکراس تنظیم کو راکھین ریاست میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی ہے اور اس کی مدد بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کر رہی ہے۔ تاہم دیگر بین الاقوامی امدادی اداروں کو کہنا ہے کہ راکھین میں موجود متاثرہ افراد کی تعداد کے اعتبار سے وہاں امدادی اشیاء کی قلت کے قوی خدشات ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ میانمار کی حکومت اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے تناؤ کی کیفیت ہے اور حکومت کا الزام ہے کہ یہ امدادی ادارے عسکریت پسندوں کی مدد کر رہے ہیں۔ تاہم یہ امدادی ادارے ان حکومتی الزامات کو قطعی مسترد کرتے ہیں۔