مہمند ایجنسی دھماکے: ہلاکتوں کی تعداد 100سے تجاوز کر گئی
11 جولائی 2010مہمند ایجنسی میں مقامی انتظامیہ کے سربراہ رسول خان نے ہفتہ کو ایک بیان میں کہا کہ اس وقت ہلاکتوں کی تعداد 102 ہو چکی ہے۔ قبل ازیں حکام نے یہ تعداد 65 بتائی تھی۔ رسول خان نے خبررساں ادارے AFP کو بتایا کہ بعض افراد موقع پر ہلاک ہو گئے تھے جبکہ بعض نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ملبے تلے دبے مزید لوگوں کی تلاش کا کام جاری ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
مہمند ایجنسی میں ہی ایک اور حکومتی اہلکار معراج محمد کا کہنا ہے کہ زخمیوں کی تعداد بھی 100 کے قریب ہے، جن میں سے بعض کی حالت نازک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 60 سے زائد افراد کی آخری رسومات جمعہ کو ہی ادا کر دی گئیں تھی، جبکہ 30 افراد کی تدفین ہفتہ کو ہوئی۔
دوسری جانب ان دھماکوں کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد حکومت نواز قبائلی عمائدین کو نشانہ بنانا ہے۔ اس علاقے میں طالبان کے ترجمان قاری اکرام اللہ نے ٹیلی فون پر AFP سے گفتگو میں کہا کہ مقامی انتظامیہ کے دفتر میں ایک اجلاس کے موقع پر طالبان کے خلاف لشکر کی تشکیل پر بات ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں بھی ایسی نشستوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
واضح رہے کہ انتظامیہ کا دفتر ایک مصروف بازار میں واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھماکوں سے سرکاری عمارتوں کے ساتھ ساتھ متعدد دکانوں کو بھی نقصان پہنچا۔
گزشتہ برس اکتوبر کے بعد پاکستان کے کسی شہر میں کی گئی یہ بدترین دہشت گردانہ کارروائی ہے۔ اس وقت شمال مغربی شہر پشاور میں ایک مصروف بازار کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 125 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان میں گزشتہ تین برس کے دوران مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام آباد حکام نے ابھی حال ہی میں اسلامی انتہاپسندی کے خلاف حکمت عملی کی تشکیل کے لئے ایک قومی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عدنان اسحاق