1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کے ساتھ ذائقوں کی بھی ہجرت

عاطف بلوچ، روئٹرز
28 مارچ 2017

شامی باورچی عماد العرناب دمشق میں تین ریستورانوں اور کئی جوس سینٹرز کا مالک تھا، مگر یہ سب خانہ جنگی میں تباہ ہو گئے۔ اب وہ لندن میں اپنا ایک ریستوران قائم کر چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/2a5xu
Syrien Abdul Halim al-Attar
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla

باورچی عماد العرناب بڑے بڑے دیگچے سامنے رکھے تیزی سے پیاز کاٹ رہا ہے اور کھانے کی تیاری میں مصروف ہے۔ دمشق سے سینکڑوں میل دور لندن میں وہ اب ایک ریستوران قائم کر چکا ہے۔ شامی دارالحکومت دمشق میں کبھی عماد کے تین ریستوران اور متعدد جوس بار ہوا کرتے تھے، مگر وہ سب کئی برسوں سے جاری خانہ جنگی کی نذر ہو گئے۔

عماد اب مشرقی لندن میں ہیں اور چھوٹے سے ریستوران کے بالائی حصے میں واقع کچن میں کھانے پکانے کا کام کرتے ہیں جب کہ نچلا حصہ شامی کھانوں کے ذائقے سے لطف لینے والوں کے لیے مخصوص ہے۔ عماد کے مطابق ’ آئیڈیا یہ ہے کہ شامی کھانوں کی لذت سے غیر شامی افراد بھی لطف اٹھا سکیں۔‘‘

عماد تین بچوں کے والد ہیں اور نہایت خوش ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر کھانا پکا سکتے ہیں۔ وہ سن 2015ء میں برطانیہ میں پناہ کے لیے پہنچے تھے۔

ان کا یہ ریستوران کسی گھر کے کچن جیسا ہے، جہاں وہ اپنے پسندیدہ کھانے، جنہیں پکانا انہوں نے اپنی والدہ سے سیکھا تھا، پکاتے ہیں۔

عماد کے مطابق، ’’یہ وہی کھانے ہیں جو ہم اپنے والدین کے ہاں دیکھا کرتے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں کھانا کھانے والے یہی محسوس کریں جیسے وہ اپنے ہی گھر میں کھانے کی میز پر بیٹھے ہیں۔‘‘

Syrien Abdul Halim al-Attar
متعدد مہاجرین نے یورپ میں اپنے آبائی ممالک سے متعلق ریستوران قائم کیے ہیںتصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla

یہاں آنے والوں کو ایک لمبی ٹیبل کے گرد روایتی شامی کھانے پیش کیے جاتے ہیں، جن میں مرغ کا تیکھا کھانا بھی شامل ہے، جو چاولوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، اس کھانے کو کبسا کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سلاد اور دیگر ڈشیں بھی موجود ہیں۔

عماد کا کہنا ہے، ’’شام میں کھانا، ظاہر ہے اہل خانہ کے ساتھ، بہت اہم ہے۔ یہ ہر ہفتے ایک میل ملاپ اور ایک دوسرے سے جڑے رہنے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں بڑی بڑی میزیں ہوتیں ہیں، تاکہ سبھی افراد ان کے اردگرد بیٹھیں اورگھنٹوں میں پکائے گئے کھانے لمحوں میں ختم کردیتے ہیں۔‘‘

عماد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یورپ میں داخل ہوئے تھے جب کہ ان کے اہل خانہ بعد میں ان سے آن ملے۔ آخری بار انہوں نے شمالی فرانسیسی شہر کیلے میں واقع مہاجر بستی ’جنگل‘ میں بہت سے افراد کے لیے کھانا پکایا تھا۔ ’’میں نے 64 روز تک وہاں ایک گلی میں کھانا پکایا۔‘‘

عماد خوش ہیں کہ اب وہ ایک مرتبہ پھر اپنا ریستوران قائم کر چکے ہیں اور انہیں امید ہے کہ ان کے کھانے غیرشامی افراد کو بھی پسند آ ئیں گے۔ اس سے قبل ایک پاکستانی نے بھی کیلے کی مہاجر بستی میں اپنا ایک ریستوران بنا لیا تھا۔ جرمنی میں بھی مختلف ممالک سے آئے ایسے افراد جو کھانے پکانے سے جڑے ہیں مختلف ریستوران قائم کر رہے ہیں۔