1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرین کے اہل خانہ کی جرمنی آمد انضمام کے لیے ضروری‘

شمشیر حیدر کے این اے
11 نومبر 2017

جرمنی میں پروٹسٹنٹ کلیسا کی کونسل کے سربراہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مہاجرین کے اہل خانہ کو جرمنی لانے کے قوانین آسان بنائے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مہاجرین کے اہل خانہ کی آمد ان کے سماجی انضمام کے لیے ضروری ہے۔

https://p.dw.com/p/2nT6D
Geflüchtete demonstrieren vor dem Innenministerium für Familiennachzug
تصویر: picture alliance/dpa/S. Stein

جرمن پروٹسٹنٹ چرچ کونسل کے سربراہ ہائنرش بیڈفورڈ شڑوہم نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ ملک کی نئی وفاقی حکومت مہاجرین کے اہل خانہ کی جرمنی آمد کے بارے میں قانون سازی کرتے وقت کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے۔

جرمنی: سیاسی پناہ کے نئے ضوابط کے سات اہم نکات

فرانس: پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کے خلاف زیادہ سخت قوانین

ایک مقامی جرمن اخبار کو گیارہ نومبر بروز ہفتہ دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بیڈفورڈ شڑوہم کا کہنا تھا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ مہاجرین کے اہل خانہ کی جرمنی آمد ان تارکین وطن کے معاشرتی انضمام کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس نکتے پر بہت زیادہ زور دے رہے ہیں۔‘‘

جرمنی میں ستمبر کے وفاقی انتخابات کے بعد چانسلر میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور اس کی ہم خیال کرسچن سوشل یونین دو دیگر جماعتوں ایف ڈی پی اور گرین پارٹی کے ساتھ مل کر نئی مخلوط حکومت بنانا چاہتی ہیں۔ ان جماعتوں کے مابین آئندہ ملکی حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات جاری ہیں جن میں تارکین وطن اور مہاجرین کا بحران کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

جرمنی میں پروٹسٹنٹ کلیسا کی نمائندہ اعلیٰ ترین شخصیت بیڈفورڈ شڑوہم نے انہی مذاکرات کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے نئی وفاقی حکومت میں شامل ممکنہ اتحادی جماعتوں سے کہا کہ ’مذاکرات کے دوران یہ بات پیش نظر رکھی جائے کہ یہ معاملہ حقیقی انسانوں سے متعلق ہے اور اس بارے میں فیصلے کرتے وقت ذمے دارانہ طرز عمل اختیار کیا جانا چاہیے‘۔

ہائنرش بیڈفورڈ شڑوہم وفاقی جرمن ریاست باویریا سے تعلق رکھنے والے ایک بشپ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ’فیملی ری یونیفیکیشن‘ کی حمایت اور وکالت صرف اعداد و شمار کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقیقی واقعات کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔

انہوں نے اپنے اس موقف کی وضا‌‌حت یو‌ں کی، ’’جب لوگ اپنے اپنے واقعات لے کر ذاتی طور پر میرے پاس آتے ہیں، تو یہ بات محض اعداد و شمار ہی کی نہیں رہتی بلکہ میرے لیے ایسے انسان اپنے اپنے حالات و واقعات کی مجسم مثالیں ہوتے ہیں۔‘‘

یونان: پاکستانیوں سمیت کئی تارکین وطن کی ترکی واپسی

جرمنی: پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد کیا کیا جا سکتا ہے؟