1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی یورپ آمد، ‘اقتصادی ترقی کا پیش خیمہ بھی‘

عاطف بلوچ19 ستمبر 2015

یورپ میں کئی عشروں بعد بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد صرف ایک انسانی بحران ہی کا پیش خیمہ نہیں بلکہ یہ متعدد یورپی ممالک میں اقتصادی ترقی کے حوالے سے ایک خوش کن بات بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GZ68
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Gebert

مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور دیگر بحران زدہ علاقوں سے ہجرت پر مجبور افراد یورپ پہنچ رہے ہیں، جہاں انہیں خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ اگرچہ یورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے لیکن کچھ مبصرین کے بقول یہ مہاجرین یورپی ممالک کی ترقی میں بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

متعدد یورپی ممالک کے زیادہ تر لوگ عمر رسیدگی کی طرف مائل ہیں جبکہ وہاں بچوں کی پیدائش کی شرح بھی کم ہے۔ یوں ورک فورس کے حوالے سے ایسے ممالک کی اقتصادیات کو ممکنہ طور پر خطرات بھی لاحق ہیں۔ شرح پیدائش میں جمود کا مطلب ہے کہ آئندہ برسوں میں ریٹائر ہونے والے افراد کی جگہ کام کرنے والے لوگوں کی کمی ہو جائے گی۔

اس صورتحال میں یورپ پہنچنے والے ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان یورپی ممالک میں ممکنہ طور پر ورکرز کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ یوں یہ براعظم ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہونے میں بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ تاہم سوال ہے کہ یہ مہاجرین یورپی ممالک میں کس طرح انضمام کے قابل ہوتے ہیں اور انہیں یورپی مارکیٹ میں کیا حیثیت دی جاتی ہے۔

ان مہاجرین کو خوش آمدید کہنے میں اس وقت جرمنی سب سے آگے ہیں۔ جرمنی کی لیبر مارکیٹ انتہائی مضبوط ہے جبکہ وہاں بہت سی ملازمتیں خالی بھی ہیں۔ دوسری طرف یونان اور اٹلی جیسے ممالک کی لیبر مارکیٹوں کی صورتحال بہت زیادہ بہتر نہیں ہے، اس لیے غالبا ان ممالک میں مثبت نتائج کے لیے برسوں یا کئی عشروں تک کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔

یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر نے مہاجرین کی یورپ آمد پر تبصرہ کرتے ہوئے ابھی حال ہی میں کہا تھا، ’’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے براعظم میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس مخصوص وقت میں یورپ کو باصلاحیت لوگوں کی ضرورت بھی ہے۔

مہاجرین کے اس بحران سے قبل جرمن شماریاتی دفتر کی طرف سے جاری کردہ اندازوں کے مطابق 2060ء تک جرمنی کی آبادی میں دس فیصد یا اس بھی زائد کمی واقع ہو جائے گی۔ اس وقت جرمنی کی کل آبادی 80.8 ملین ہے۔ جرمن حکام کے اندازوں کے مطابق آئندہ پندرہ برسوں میں جرمن ورک فورس میں چھ ملین افراد کی کمی ہو جائے گی۔

Ungarn Syrische Flüchtlinge Keleti Bahnhof
کچھ مبصرین کے بقول یہ مہاجرین یورپی ممالک کی ترقی میں بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیںتصویر: picture alliance/landov/A. Zavallis

شام، عراق اور دیگر شورش زدہ ممالک سے فرار ہونے والے تقریبا آٹھ لاکھ افراد رواں برس جرمنی میں پہنچ سکتے ہیں۔ جرمن حکومت کے مطابق رواں اور آئندہ برس کے دوران ان مہاجرین کی ویلفیئر سپورٹ اور جرمن زبان کی تربیت پر چھ بلین یورو کے برابر لاگت آئے گی۔ تاہم یہ سرمایہ کاری بعدازاں جرمن اقتصادی ترقی کے لیے بھی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔

یو این آئی کریڈٹ بینک سے وابستہ ماہر اقتصادیات آندریس ریئس کا کہنا ہے کہ جرمنی میں آنے والے مہاجرین کی بدولت 2020ء تک جرمن اقتصادی نمو میں 1.7 فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ مرسیڈیز کاریں اور ٹرک بنانے والی کمپنی ڈائملر کے سی ای او ڈیٹر سیچے نے رواں ہفتے ہی کہا تھا کہ آٹھ لاکھ سے زائد افراد کو پناہ دینا ایک بڑا کام ہے، جس کے لیے بلند حوصلہ اور عزم چاہیے لیکن بہترین حالات میں یہ پیشرفت جرمن اقتصادی ترقی کے لیے ایک نیا باب ثابت ہو سکتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید