1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی کشتی ساحل سے ٹکرا گئی، پچاس افراد بچا لیے گئے

عاطف توقیر19 اگست 2016

جمعے کے روز یونان کے جنوب مغربی ساحلی علاقے میں مہاجرین کی ایک کشتی خشکی پر چڑھ گئی۔ اس واقعے کے بعد پچاس مہاجرین کو ریسکیو کر لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Jli0
Griechenland Bootsflüchtlinge im Mittelmeer
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

یونانی پولیس کے مطابق مہاجرین کی یہ کشتی ایک ساحلی علاقے میں خشکی سے جا ٹکرائی، جس کے بعد یہ مہاجرین پتھریلے علاقے میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین کو قریبی یونانی علاقے میتھونی پہنچا دیا گیا ہے، جہاں ان کی شناخت کے بعد سیاسی پناہ کے حوالے سے ان کی درخواستوں کا عمل آگے بڑھایا جائے گا۔

حکام کے مطابق ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں کسی حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان مہاجرین نے کون سے راستے سے یونان پہنچنے کی کوشش کی اور کس طرح انہوں نے بحیرہء ایجیئن کے راستے کو چھوڑ کر اس غیر عمومی راستے کے ذریعے یونان پہنچنے کی کوشش کی۔#bbig

یونانی حکام کے مطابق جمعرات سے جمعے تک قریب 261 مہاجرین بحیرہء ایجیئن میں واقع یونان جزائر پہنچنے ہیں، جب کہ ان مہاجرین کی زیادہ تر تعداد لیسبوس جزیرے پر اتری ہے۔ حالیہ کچھ روز میں ترکی سے یونان کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں ایک بار پھر تیزی دیکھی گئی ہے۔ یونان میں مہاجرین کے بحران سے متعلق امور کے حوالے سے قائم ایجنسی SOMP کا کہنا ہے کہ حالیہ کچھ مہینیوں میں یہ تعداد خاصی کم تھی، تاہم اس میں کسی حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس ایجنسی کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ موسم گرما کے مقابلے میں اب بھی ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بہت کم ہے، کیوں کہ گزشتہ برس یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر ایک سو سے زائد تھی۔

واضح رہے کہ رواں برس مارچ میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مہاجرین کے بحران کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس میں ترکی کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان پہنچنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کو روکے۔ اس کے بدلے ترکی کے لیے متعدد مراعات کے وعدے کیے گئے تھے، جن میں ترک باشندوں کی شینگن ممالک میں ویزا فری انٹری بھی شامل تھی، تاہم اب تک اس معاملے میں کوئی عملی پیش رفت نہیں ہو پائی۔