1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی لہر، جرمنی ماضی کی غلطی نہ دہرائے، ترک برادری

عاطف توقیر23 ستمبر 2015

جرمنی نے شام اور دیگر جنگی تنازعات کے شکار ممالک سے ریکارڈ تعداد میں مہاجرین کو قبول کیا ہے، تاہم یہاں بسنے والی ترک برادری کا کہنا ہے کہ جرمنی ’اپنے ماضی کی غلطی کو نہ دہرائے۔‘

https://p.dw.com/p/1GauM
Österreich Flüchtlinge warten auf Züge in Salzburg
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Gindl

دوسری عالمی جنگ کے بعد بھی ریکارڈ تعداد میں ترک باشندوں کو جرمنی میں روزگار دیا گیا تھا، تاہم آج تک جرمنی کی سب سے بڑی اقلیت ترک برادری کے معاشرتی دھارے میں مکمل انضمام کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات موجود ہیں۔

جنگ زدہ علاقوں سے فرار ہو کر یورپ کا رخل کرنے والے افراد کی پسندیدہ منزل جرمنی ہی ہوتا ہے، جہاں پہلے ہی تین ملین ترک باشندے بستے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی نے ورکرز پروگرام کے تحت لاکھوں تک باشندوں کو اپنے ہاں ملازمتیں دیں تھیں۔

سن 1960ء میں مغربی جرمنی کے کہلانے والے علاقے میں اقتصادی ترقی میں تیزی کو تواتر دینے کے لیے ترک اور دیگر ممالک سے افرادی قوت طلب کی گئی تھی، جنہوں نے کارساز اداروں، کوئلے کی کانوں اور اسٹیل کے کارخانوں میں کام کیا۔

Dossierbild 50 Jahre deutsch-türkisches Anwerbeabkommen 2
’مہمان مزدور‘ لوکھوں کی تعداد میں جرمنی آئے تھےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی میں ترک کمیونٹی کے چیرمین گوکے سوفواولو کے مطابق، ’’ماضی میں غلطی یہ کی گئی تھی کہ مہمان مزدوروں کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ وہ یہاں صرف کام کے لیے آئے ہیں اور ایک دن انہیں واپس جانا ہے۔‘‘

تاہم ان میں سے ایک بڑی تعداد جرمنی ہی میں مقیم ہو گئی اور بعد میں جرمنی میں سب سے بڑی نسلی اقلیت بن گئی۔

یہ بات اہم ہے کہ ترکی اور جرمنی کے درمیان ملازمین کے تبادلے کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کے تحت سن 1961 سے 1973 کے دوران قریب نو لاکھ تک باشندے جرمنی پہنچے تھے، جن میں 20 فیصد خواتین تھیں۔

جرمنی کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ ’امیگرنٹس کا ملک‘ نہیں ہے، تاہم گیسٹ ورکرز پروگرام نے جرمن معاشرے کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔

اب ان گیسٹ ورکز کے بچے اور دوسری نسل جرمن سیاست، میڈیا، فٹ بال کے میدانوں اور پاپ موسیقی کے چارٹس پر نظر آتے ہیں۔ اسی تناظر میں ترک دکانیں اور مارکیٹیں، ترک ریستوران اور کھانے بھی جرمنی میں نہایت مقبول ہیں۔

تاہم اب بھی جرمنی میں اب بھی یہ بحث جاری ہے کہ ملک میں مقیم ترک برادری کو کس طرح جرمن معاشرتی دھارے میں مکمل طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ متعدد معمر ترک باشندے اب تک جرمن زبان میں مہارت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے انہیں اور میزبان معاشرے کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔