1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرین کو باکسنگ رنگ میں آنے کی دعوت‘

عاطف بلوچ3 ستمبر 2016

عراقی نژاد جرمن شہری حسین اسماعیل ہیمبرگ میں ایک باکسنگ کلب چلا رہے ہیں۔ اسماعیل مہاجرین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ نہ صرف وہ اس کلب کا رکن بنتے ہوئے تربیت حاصل کریں بلکہ نئے دوست بھی بنائیں۔

https://p.dw.com/p/1JvI5
Deutschland Flüchtlinge trainieren beim Boxclub Hanseaten in Hamburg
کھیلوں کے ذریعے معاشرے کا فعال رکن بننا، دالیا (بائیں) کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں ہےتصویر: DW/J. Witt

’’میں نہیں جانتی کہ اگر میں اس کلب کی رکن نہ بنتی تو پھر کیا کرتی‘‘۔ پندرہ سالہ فلسطینی مہاجر لڑکی دالیا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ چھ برس قبل فلسطین چھوڑ کر جرمنی آئی تھیں، ’’گزشتہ برس میں ہیمبرگ پہنچی تھی۔ امید ہے کہ مجھے یہاں رہنے دیا جائے گا۔ میں ہمیشہ ہی فائٹنگ کلب کا رکن بننا چاہتی تھی۔‘‘

سرخ رنگ کی ٹی شرٹ میں ملبوس نوعمر دالیا نے باکسنگ گلوَز پہنتے ہوئے مزید کہا، ’’میرے اسکول میں سماجی کام کرنے والے ایک کارکن نے مجھے اس کلب کے بارے میں بتایا۔ شروع میں مجھے تربیت میں کچھ مشکلات پیش آئیں لیکن اب آسانی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

دالیا کے لیے یہ کلب تربیت حاصل کرنے کے علاوہ نئے دوست بنانے کی جگہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کلب کے توسط سے وہ ایسے دیگر مہاجرین سے ملیں، جو اپنے ممالک کو چھوڑ کر جرمنی آئے ہیں۔ دالیا کے کنبے کو البتہ معلوم نہیں ہے کہ وہ جرمنی میں رہ سکے گا یا اسے واپس جانا پڑے گا۔

کھیلوں کے ذریعے انضمام

حسین اسماعیل کے کلب کام نام BC Hanseat ہے، جہاں دالیا کے علاوہ تقریبا ایک درجن دیگر مہاجرین بھی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ کلب دراصل مہاجرین کے لیے سماجی رابطوں کی ایک آماجگاہ بھی بن چکا ہے۔ اس کلب کے مہاجر رکن حسین سے باکسنگ کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور ساتھ ہی گپ شپ کے دوران اپنی جرمن زبان کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

کرد نسل سے تعلق رکھنے والے حسین اسماعیل سن 1979 میں عراق سے ہجرت کر کے جرمنی پہنچے تھے۔ وہ مختلف جرمن شہروں میں رہے اور انہوں نے مکینیک کی تربیت حاصل کی۔ لیکن باکسنگ کا شوق ان کی رگوں میں دوڑتا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اسماعیل نے کہا، ’’میں جہاں بھی رہا، باکسنگ کی پریکٹس کرتا رہا۔‘‘ انہوں نے انیس سو ترانوے میں کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر اس کلب کی بنیاد رکھی تھی۔ تب اس کلب کی ممبران کی تعداد سات یا آٹھ تھی لیکن اب 80 ممبران اس کلب سے وابستہ ہیں۔ یہ کلب مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر چیمپئن پیدا کر چکا ہے۔

Deutschland Flüchtlinge trainieren beim Boxclub Hanseaten in Hamburg
حسین اسماعیل کے کلب کام نام BC Hanseat ہے، جہاں دالیا کے علاوہ تقریبا ایک درجن دیگر مہاجرین بھی تربیت حاصل کر رہے ہیںتصویر: DW/J. Witt

گزشتہ برس ہی اسماعیل اور اس کے دیگر ساتھیوں نے مہاجرین کے لیے کچھ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اسماعیل کے بقول اسی سوچ کے تحت انہوں نے مہاجرین کو اس کلب میں خوش آمدید کہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ عراق سے تعلق کی وجہ سے اسماعیل کو کرد، عربی اور فارسی زبانیں بولنا آتی ہیں۔ یوں بالخصوص مشرقی وسطی اور شمالی افریقہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ وہ آسانی کے ساتھ بات چیت کر لیتے ہیں۔

اسماعیل کے مطابق اس کلب کے ممبر بننے والے مہاجرین جرمن ممبران کے ساتھ بھی گھل مل چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایسے مہاجرین کے ساتھ زیادہ تر جرمن زبان میں ہی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اس زبان کو جلد سیکھ سکیں۔

کھیلوں کے ذریعے معاشرے کا فعال رکن بننا، دالیا کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ وہ بذات خود اس طریقے سے نئے دوست بنا چکی ہیں۔ بقول ان کے اس کلب کی وجہ سے انہیں باکسنگ کے علاوہ بھی کئی نئی چیزیں سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ دالیا کو اپنے باکسر ہونے کے علاوہ اس کلب پر بھی فخر ہے۔ اس پندرہ سالہ لڑکی کا اگلہ مقصد اب باقاعدہ مقابلوں میں حصہ لینا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں