1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین اور جرمن شہریوں کی بڑھتی قربتیں

عاطف توقیر18 جولائی 2016

زابینے کولوم بیٹیس کو زیتون کے پچاس درخت شام سے ہجرت کر کے جرمنی پہنچنے والے فاثی نے دیے۔ فاثی زابینے کی جانب سے انہیں رات کے کھانے پر مدعو کرنے اور ان کی خوب خاطر مدارات کرنے پر خوش تھے۔

https://p.dw.com/p/1JQtP
Abendessen mit Flüchtlingen
تصویر: DW/G. Hamann

فاثی اور ان کے اہل خانہ کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ زابینے کولوم بیٹیس کے اہل خانہ کے ہم راہ وقت گزاریں اور اس طرح دو گھرانوں کے درمیان دوستی کی بنیاد رکھی جائے۔

زابینے کہتی ہیں، ’’ہم نے اس رات بہت اچھا وقت ساتھ گزارا۔ فاثی اور ان کی اہلیہ نورہان نے ہمیں بتایا کہ وہ کس طرح جرمنی پہنچے۔ انہوں نے شام میں اپنے گھر کی تصاویر بھی ہمیں دکھائیں۔‘‘

اس خان دان کو شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑنا پڑا اور وہیں انہیں اپنا سب کچھ بھی ترک کرنا پڑا، جس میں ان کے ساڑھے سات سو زیتون کے درخت بھی تھے۔ ’’مجھے زیتون کے درخت بے انتہا پسند ہیں۔ جب میں نے فاثی کو بتایا کہ زیتون کے درخت مجھے بہت پسند ہیں، تو انہیں نے کہا کہ میں ان میں سے پچاس درخت آپ کو دیتا ہوں۔‘‘

Familie Colombetti und Familie Fathi und Norhan von "Ich lade Dich ein"
دونوں خان دان ایک ساتھ وقت گزارتے ہوئےتصویر: privat

جب زابینے یہ بات بتا رہی تھیں، تو ان کی آواز خوشی سے کانپ رہی تھی۔ پھر اس ملاقات کے کچھ عرصے بعد زابینے اپنے شوہر اور بیٹے کے ہم راہ اس مہاجر کیمپ پہنچیں جہاں فاثی اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم ہیں۔ اس وقت اس مہاجر خان دان نے بھی روایتی شامی کھانوں سے اس جرمن گھرانے کی تواضع کی۔ اب یہ دونوں خان دان قریب ہر ہفتے ہی ایک دوسرے سے ملنے لگے ہیں اور ان دونوں خان دانوں کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم ہو گیا ہے۔

جرمنی میں متعدد خان دان ابھی اسی طریقے سے مہاجر خان دانوں کے ساتھ دوستیاں کر رہے ہیں۔ یعنی سب سے پہلے تو ان مہاجر گھرانوں کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا جاتا ہے اور پھر مہاجر بستیوں میں ان کے ہاں جایا جاتا ہے۔ اس طرح چھوٹے موٹے مسائل میں ان مہاجرین کی مدد کا سلسلہ بھی چل نکلتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دو خان دانوں کے درمیان ایک مضبوط تعلق بھی قائم ہو جاتا ہے۔

ایک اور جرمن خان دان کا کہنا ہے کہ تمام ہی مہاجرین کو ابتدا میں ایک نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں دشواری ہوتی ہے، جس میں خصوصاﹰ نئی زبان سے ناآشنائی اور دیگر سماجی مسائل ہیں، مگر اس طرح کے میل ملاپ سے یہ خلیج پاٹنے میں آسانی رہتی ہے۔