1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کی خواتين کے احترام کے لیے خصوصی تربیت

عاصم سليم9 جنوری 2016

خواتين کو ہراساں کيے جانے کے واقعات سے بچنے اور مقامی طور طريقوں و ثقافت کی آگہی کے ليے يورپی رياست ناروے ميں پناہ گزينوں کے ليے خصوصی کورسز کا آغاز کيا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hada
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Grubitzsch

ناروے ميں پناہ گزينوں کے مراکز کی منتظم ايک کمپنی ہيرو سے وابستہ لنڈل ہيگن کا کہنا ہے کہ اِن کورسز کا مقصد يہ ہے کہ مہاجرين ناروے کی ثقافت کو سمجھتے وقت غلطياں نہ کريں۔ اُن کے بقول ناروے کا معاشرہ آزاد ہے اور وہاں ايسے رجحانات اور چيزوں کی برداشت ہونی چاہيے، جو مذہبی يا ثقافتی طور پر مختلف ہوں۔

يہ پيش رفت جرمنی ميں نئے سال کی آمد کے موقع پر لڑکيوں کو جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کے واقعات کے بعد رونما ہوئی ہے۔ اکتيس دسمبر کی رات کولون شہر کے مرکزی ٹرين اسٹيشن پر بظاہر ’عرب اور افريقی‘ دکھائی دينے والے سينکڑوں نوجوانوں نے خواتين کے ساتھ بد تميزی اور لوٹ مار کی۔ اِس واقعے کے بعد جرمنی اور يورپ کے ديگر کئی ملکوں ميں پناہ گزينوں کے انضمام کے حوالے سے ايک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

ناروے ميں سن 2009 اور 2011ء کے درميان جنوب مغربی شہر اسٹراوينگر ميں غير ملکيوں کے ہاتھوں خواتين کی آبروريزی کے متعدد واقعات رپورٹ کيے گئے تھے اور اِنہی واقعات کے بعد ہيرو کی جانب سے يہ پروگرام شروع کيا گيا تھا۔ اب اِس کورس کو مہاجرين کے بحران کی لہر ميں ناروے پہنچنے والے پناہ گزينوں کے ليے شروع کيا جا رہا ہے۔

ايک اور يورپی رياست بيلجيئم نے بھی جمعے کے روز اعلان کيا ہے کہ ناروے کے نقش و قدم پر چلتے ہوئے وہاں پہنچنے والے تارکين وطن کے ليے بھی اِسی طرز کے کورسز متعارف کرائے جائيں گے۔ مہاجرت اور سياسی پناہ سے متعلق امور کے سيکرٹری تھيو فرانکن نے دارالحکومت برسلز ميں ذرائع ابلاغ سے بات چيت کرتے ہوئے بتايا کہ کورس ميں صرف خواتين کے احترام پر ہی نہيں بلکہ ديگر ثقافتی و معاشرتی امور پر بھی معلومات شامل ہوں گی۔

رپورٹوں کے مطابق کولون کے واقعے ميں ملوث بظاہر ’عرب اور افريقی‘ تھے
رپورٹوں کے مطابق کولون کے واقعے ميں ملوث بظاہر ’عرب اور افريقی‘ تھےتصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

دوسری جانب مہاجرت کے مخالف گروپ ہيومن رائٹس سروس کی ہيگے اسٹروہوگ کا کہنا ہے کہ آئندہ برسوں ميں خواتين کے ساتھ ايسے واقعات ميں اضافہ ديکھا جا سکتا ہے۔ اُن کے بقول نوجوان نسل کے اکثريتی مسلمان مہاجر عورتوں کو محض ’جنسی اشياء‘ سمجھتے ہيں يا انہيں کافی ’کم تر‘ مانتے ہيں۔

نفسياتی ماہر پيئر اسڈال کا خيال ہے کہ خواتين کے خلاف ممکنہ جنسی حملوں کو روکنے کے ليے صرف کورسز کافی نہيں۔ انہوں نے کہا، ’’مردوں کو جنسی طرز کے حملوں سے باز رکھنے کے ليے ملازمت، رہائش کا انتظام مہيا کرنا ہوگا جبکہ غربت کا خاتمہ بھی لازمی ہے۔‘‘ اسڈال نے ’آلٹرنيٹو ٹُو وائلنس‘ نامی ايک تنظيم کے ساتھ ايک وسيع تر پروگرام شروع کيا ہے، جو ڈائيلاگ گروپس پر مشتمل ہے يعنی جس کے ذريعے لوگ بات چيت کے ذريعے سيکھ سکتے ہيں۔ اس پروگرام کے ذريعے لوگ کسی استاد کے بغير صرف بات چيت کی مدد سے ايک دوسرے کے بارے ميں جان سکتے ہيں۔