1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاتما گاندھی آج بھی بہت سوں کے ليے مثالی شخصيت

5 اکتوبر 2011

ہندوستان کی جنگ آزادی کے ہيرو مہاتما گاندھی کی وفات کے 60 سال سے بھی زيادہ عرصہ گذرنے کے باوجود حيرت انگيز طور پر اُن کی مقبوليت ميں کمی نہيں ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/12ip5
مہاتما گاندھی، جنوبی افريقہ ميں بحيثيت وکيل، 1894
مہاتما گاندھی، جنوبی افريقہ ميں بحيثيت وکيل، 1894تصویر: picture-alliance/akg-images

مارٹن لوتھر کنگ، نيلسن مينڈيلا اور دلائی لاما سے لے کر باراک اوباما تک نے مہاتما گاندھی کو اپنے ليے ايک مثالی شخصيت قرار ديا ہے۔

مہاتما گاندھی کو ايک افسانوی حيثيت حاصل ہو چکی ہے۔ انہيں مرنے کے بعد بھی عالمی مقبوليت حاصل ہے۔ ليکن مہاتما گاندھی شروع ہی سے ايک شاندار شخصيت کے مالک نہيں تھے بلکہ ان کی شخصيت کے بھی تاريک گوشے تھے۔ اپنی عمر کے ابتدائی حصے ميں انہيں ذاتی نوعيت کے مسائل کا سامنا رہا۔ ازدواجی زندگی کے آغاز ميں اپنی اہليہ کستوربا کے ساتھ بھی ان کا رويہ درشت اور محکمانہ تھا۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کے فکری اور سياسی ليڈر کے درجے تک پہنچنا ايک ارتقائی عمل تھا۔ يہ بات انہيں بہت سے لوگوں کے ليے ايک ايسی دلکش شخصيت بنا ديتی ہے، جو بشری کمزوريوں سے پاک نہيں ہے۔

گاندھی پر ريسرچ کرنے والے امريکی مائيکل نيگلر کے مطابق گاندھی کے نظريات متاثر کن، تضادات سے خالی، پرزوراوراس ليے آج بھی جديد ہيں: ’’اُن ميں وقت کے دھارے کے خلاف چلنے کی ہمت تھی۔ انہيں ايک پرانی، بھلا دی جانے والی دانشمندی کو اس طرح زندہ کرنے ميں کاميابی ہوئی کہ اُسے ہمارے جديد دور ميں بھی استعمال کيا جا سکتا تھا اور وہ سب کے ليے قابل فہم بھی تھی۔ اس طرح اُنہوں نے بنی نوع انسان کی دريافتوں ميں سے ايک بڑی دريافت کی، يعنی يہ کہ عدم تشدد ايک ايسا ہتھيار ہے، جو ہر شخص ہرصورتحال ميں استعمال ميں لا سکتا ہے۔‘‘

گاندھی کی پوتياں مانو اور اوا، جو ان کے قتل کے وقت ان کے ساتھ تھيں، اس خون آلود کشميری شال کے ساتھ جو وہ بوقت قتل پہنے ہوئے تھے
گاندھی کی پوتياں مانو اور اوا، جو ان کے قتل کے وقت ان کے ساتھ تھيں، اس خون آلود کشميری شال کے ساتھ جو وہ بوقت قتل پہنے ہوئے تھےتصویر: AP

مہاتما گاندھی کی تعليمات کی تين بنياديں ہيں: عدم تشدد يا آہنسا، سچائی پر مضبوطی سے جمے رہنا يا ستياگرہ اور انفرادی سياسی حق رائے دہی يا سواراج۔ گاندھی صلح جوئی کے قائل تھے اور اس ليے انہوں نے حضرت محمد اور بدھ مت کی تعليمات کا گہرا مطالعہ کيا۔ گاندھی نے اپنی سوچ کا اظہار ايک مرتبہ يوں کيا تھا: ’’ميں جو کچھ ديکھتا ہوں وہ يہ ہے کہ زندگی موت کی آغوش ميں، سچائی جھوٹ کے درميان اور روشنی اندھيرے کے بيچ ميں اپنا وجود قائم رکھتی ہے۔ اس سے ميں يہ نتيجہ نکالتا ہوں کہ خدا زندگی، سچائی اور نور ہے اور وہ محبت اور اعلٰی ترين وجود ہے۔‘‘

گاندھی اور جناح، بمبئی ميں۔ ستمبر 1944
گاندھی اور جناح، بمبئی ميں۔ ستمبر 1944تصویر: AP

گاندھی دو اکتوبر سن 1869 کو رياست گجرات ميں پيدا ہوئے تھے۔ اُن کا نام موہن داس کرم چند رکھا گيا۔ وہ مہاتما، يعنی عظيم روح کے القاب کو خود کچھ خاص پسند نہيں کرتے تھے۔ وہ ايک اچھے طالبعلم نہيں  تھے اور بہت شرميلے تھے۔ انہوں نے لندن ميں قانون کی تعليم حاصل کی۔ سن 1920 ميں انہوں نے کانگريس پارٹی کی قيادت سنبھالی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو برابر کے حقوق دينے کا وعدہ کرنے پر 30 جنوری سن 1948 کو ايک ہندو قوم پرست ناتھو رام نے انہيں قتل کرديا۔

رپورٹ: پريا ايسل بورن / شہاب احمد صديقی

ادارت: امجد علی    

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید