موسوی انتخابات کے بعد پہلی بار عوام کے سامنے
17 جولائی 2009اپوزیشین رہنما میر حسین موسوی بارہ جون کے صدارتی انتخابات کے بعد آج پہلی بار تہران یونیورسٹی میں عوام کے سامنے آئے۔ یونیورسٹی کی مسجد کے باہر موسوی کے ہزاروں حامی جمعے کے خطبے میں شرکت کے لئے موجود تھے، جن پر پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کئے اور 15 کے قریب افراد کو حراست میں بھی لے لیا۔ مظاہرین نے سبز ماسک لگا رکھے تھے۔ یا د رہے کہ یہ رنگ موسوی کی تحریک کا امتیازی نشان تصور کیا جاتا ہے۔ سابق صدر اکبرہاشمی رفسنجانی نے آج اپنے خطبے میں حکومت پر انتخابی نتائج کے حوالے سے تنقید کی۔ رفسنجانی نے کہا کہ انتخابی نتائج کے بعد سے عوام کا اعتماد حکومت پر سے اٹھ گیا ہے اور ایران آج کل ایک تلخ دور سے گذر رہا ہے۔
سابق صدر نے اپنے خطبے میں کہا کہ "اعتماد ایک یا دو دن میں بحال نہیں ہوسکتا۔ سب کو نقصان پہنچا ہے۔ اور اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ باہمی اتحاد کی ضرورت ہے"۔ 75 سالہ رفسنجانی نے ایران کی مجلس شوریٰ پر تنقید کی کہ وہ اپنی ذمہ داری صحیح طور پر انجام نہ دے سکی۔ تہران یونیورسٹی میں اپنے خطبے میں سابق صدر نے حکومت کی جانب سے مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کے ذریعے طاقت کے استعمال کی بھی مذمت کی۔ رفسنجانی کا کہنا تھا:" سب جانتے ہیں کہ امام خمینی کیا چاہتے تھے۔ وہ انقلاب میں بھی خوف اور دہشت پھیلانے کی اجازت نہیں دیتے تھے"۔
تفصیلات کے مطابق خطبے کے بعد مظاہرین کی بڑی تعداد نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور صدر احمدی نژاد سے استعفے کا بھی مطالبہ کیا۔
اِسی دوران ایٹمی توانائی کے سرکاری ایرانی ادارے کےسربراہ اور نائب صدر غلام رضا آغا زادے کا استعفیٰ تہران حکومت کے لئے ایک دھچکے سے کم نہیں تھا۔ ایرانی حکومت نے آج اقوام متحدہ کے لئے جوہری توانائی کے امور سے وابستہ رہنے والے علی اکبر صالحی کو ایٹمی توانائی کی تنظیم کا نیا نگران مقرر کیا ہے۔ چونکہ ایران میں ایٹمی توانائی کی تنظیم کا سربراہ نائب صدر کا عہدہ بھی رکھتا ہے، اس لئے اس تقرری کو بے حد اہمیت دی جا رہی ہے۔
رپورٹ : میراجمال
ادارت : امجدعلی