1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلیاں: یورپ کا مثالی طرزِ عمل

6 دسمبر 2010

جہاں امریکہ اور چین جیسے ممالک میکسیکو کے شہر کانکون میں بھی کسی عالمگیر سمجھوتے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں، وہاں یورپ دُنیا کا وہ خطہ ہے، جہاں جوش و خروش کے ساتھ تحفظ ماحول کے اقدامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/QQTB
کانکون کانفرنس کا ایک منظرتصویر: picture alliance / dpa

یورپی یونین نے گزشتہ سال اپنے لئے یہ ہدف بھی مقرر کیا تھا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی مقدار میں 1990ء کی سطح کے مقابلے میں کم از کم بیس فیصد کی کمی کی جائے گی۔ یورپی یونین ابھی سے اِس شرح کو 17.3 فیصد تک لا چکی ہے۔ اگرچہ چند ایک یورپی ممالک، جن میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہیں، اِس ہدف کو بڑھا کر تیس فیصد تک لے جانے کی وکالت کر رہے ہیں تاہم اِس پر ابھی اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا ہے۔ دیگر ملک راضی ہو جائیں تو یورپی یونین بھی تیس فیصد کمی کے ہدف کے لئے تیار ہے۔

تحفظ ماحول کی علمبردار تنظیم ’دی کلائمیٹ گروپ‘ کے یورپی ڈائریکٹر لُوک باس کہتے ہیں:’’ضرر رساں گیسوں کے اخراج کے موجودہ اہداف اور اقتصادی بحران کے پیشِ نظر دیگر ممالک واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ یورپی ممالک کو اِن گیسوں کے اخراج میں بیس فیصد کمی کے لئے زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑے گی۔ یہ بہت ضروری ہے کہ یورپ زیادہ بڑے اہداف مقرر کرے۔ یہ چیز توانائی کے ذرائع کو محفوظ بنانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا باعث بنے گی اور اختراعی ٹیکنالوجی اور توانائی کو دوسرے علاقوں میں جانے سے روکے گی۔‘‘

Autoverkehr Auspuff Abgase
فیکٹریوں اور کارخانوں کے ساتھ ساتھ ٹریفک کا دھواں بھی فضا میں کاربن گیسوں کے اخراج کا ایک بڑا ذریعہ ہےتصویر: dpa

برطانیہ کے لبرل ڈیموکریٹ سیاستدان کرِس ڈیویز یورپی پارلیمان کی ماحولیاتی کمیٹی کے رکن ہیں، وہ کہتے ہیں:’’یورپ کی ایک تاریخی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔ سب سے پہلے یہ ہم ہی تھے، جنہوں نے بھاری مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کی۔ اب ہمیں ایسی نئی ٹیکنالوجی سامنے لانی چاہئے، جس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کم سے کم خارج کرتی ہو۔ چنانچہ ہمیں اِس سلسلے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے، ورنہ دوسرے ہماری تقلید بھی نہیں کریں گے۔ چین، بھارت اور امریکہ جیسے ملکوں کو بھی ساتھ چلنا ہو گا۔ ہمیں پُر عزم رہنا چاہئے کیونکہ ہمارے اقدامات پر مستقبل کی نسلوں کا انحصار ہے۔‘‘

کونی ہیڈے گارڈ آج کل تحفظ ماحول کی یورپی کمشنر ہیں۔ وہ ڈنمارک میں توانائی اور ماحول کے امور کی وزیر تھیں، جب اُنہوں نے اپنے ملک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ماحولیاتی کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ اُنہوں نے کاربن ٹیکنالوجی کے حوالے سے یورپی کمپنیوں کی کارکردگی کو سراہا لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے یہ تنبیہ بھی جاری کی کہ بہت بڑے اہداف مقرر کرنے اور اُن کے حصول میں تیز رفتری دکھانے سے روزگار کے مواقع ختم بھی ہو سکتے ہیں۔

Connie Hedegard Klimaministerin Dänemark
ڈنمارک کی توانائی اور ماحول کی سابق وزیر کونی ہیڈے گارڈ آج کل تحفظ ماحول کی یورپی کمشنر ہیںتصویر: DW

اپنے اِس بیان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ہیڈے گارڈ نے کہا:’’اگر ہم حد سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کریں گے تو روزگار کے مواقع ختم ہو سکتے ہیں، میرا خیال ہے، بہت سے یورپی شہری اِس بات سے اتفاق کریں گے۔ کوشش یہ کی جانی چاہئے کہ ایک اچھا توازن قائم کیا جائے۔ اگر ہم سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں تو روزگار کے مواقع سے محروم ہوئے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘‘

ہیڈے گارڈ نے کہا، کانکون میں دَس دسمبر تک جاری ماحولیاتی کانفرنس میں بھی ضروت اس بات کی ہے کہ صنعتی ممالک نے کوپن ہیگن میں جو وعدے کئے تھے، اُنہیں اب پورا بھی کیا جائے:’’اگر آپ ترقی پذیر ملکوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ اب تک بہت سی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں، جن میں صنعتی ممالک نے فلاں فلاں وعدے کئے لیکن یہ کہ اِن ملکوں کو پیسہ کبھی نہیں ملا۔ اِس مرتبہ ہماری کارکردگی مختلف ہونی چاہئے۔ صنعتی ملکوں کے گروپ نے تقریباً تیس ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یورپ نے اِس رقم کا ایک تہائی فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اب کانکون میں ہم ثابت کریں گے کہ ہم اپنے وعدہ نبھائیں گے۔‘‘

تاہم ماحولیات کی یورپی کمشنر کا یہ بھی اصرار ہے کہ دیگر ممالک کو بھی اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہئے۔ امریکہ نے کوپن ہیگن میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے ہاں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی مقدار میں 2005ء کے مقابلے میں 17 فیصد کمی کر دے گا۔ آیا امریکہ اپنا یہ وعدہ پورا کرے گا، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید