1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منیٰ میں بھگدڑ کی تحقیقات ہونا چاہییں، ایرانی صدر کا مطالبہ

عاطف توقیر27 ستمبر 2015

ایرانی صدر حسن روحانی نے مطالبہ کیا ہے کہ حج کے دوران منیٰ میں پیش آنے والے بھگدڑ کے واقعے اور اس کے نتیجے میں ساڑھے سات سو سے زائد افراد کی ہلاکت کی تحقیقات کی جانا چاہییں۔

https://p.dw.com/p/1GeCN
Hassan Rohani UN New York
تصویر: picture alliance/Newscom

ایرانی صدر نے یہ مطالبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماؤں سے اپنے خطاب میں کیا۔ روئٹرز کے مطابق اس مطالبے کے لیے اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم استعمال کر کے ایران نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ عالمی برادری اس سانحے کی باقاعدہ چھان بین کے لیے سعودی عرب پر دباؤ ڈالے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس اس لیے بھی اہم ہے، کہ عالمی رہنما اس بار عالمی ترقی کے لیے نئے اہداف کا تعین کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق ایران کی جانب سے اس واقعے کو اپنے روایتی حریف ملک سعودی عرب کے خلاف استعمال کرنے کی ایک وجہ ان دونوں ممالک کی خطے میں اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے جاری رسہ کشی بھی ہے۔ دونوں ممالک اسلامی دنیا میں خود کو ’قائد‘ کے طور پر منوانے کی کوششوں میں ہیں۔

193 رکنی جنرل اسمبلی سے خطاب میں حسن روحانی نے زور دیا کہ اس حادثے اور رواں برس دوران حج پیش آنے والے ایسے ہی دیگر واقعات کی چھان بین ضروری ہے، تاکہ ان کے اسباب کا تعین کیا جا سکے۔ انہوں نے منیٰ میں بھگدڑ کے واقعے کو ’لرزہ خیز‘ قرار دیا۔

Iran Proteste gegen Saudi-Arabien und die USA
اس واقعے پر ایران میں احتجاج بھی ہواتصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

جمعے کے روز سعودی عرب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس واقعے کا سبب حجاج کا سکیورٹی کے لیے دی گئی ہدایات کو نظر انداز کرنا تھا۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان اس واقعے کے بعد حج انتظامات پر نظرثانی کے احکامات جاری کر چکے ہیں جب کہ وزیرصحت خالد الفلیح کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی۔

اطلاعات کے مطابق اس حادثے میں 131 ایرانی شہری بھی ہلاک ہوئے اور ایران کی جانب سے اس بھگدڑ پر مقامی اور عالمی دونوں سطحوں پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے نیو یارک ہی میں ایران پر الزام عائد کیا کہ وہ اس واقعے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ اپنی ایک ملاقات سے قبل ان کا کہنا تھا، ’’یہ ایسا واقعہ نہیں جس پر سیاست کی جائے۔ مجھے امید ہے کہ ایرانی رہنما ہوش مندی سے کام لیں گے اور ان لوگوں کے بارے میں سوچیں گے، جو اس حادثے سے متاثر ہوئے۔ اس سلسلے میں تحقیقات کے نتائج کا انتظام کرنا بہتر ہو گا۔‘‘

قبل ازیں جمعے کے روز حسن روحانی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس سانحے کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے اپنے تجربہ کار فوجی یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑائی کے لیے تعینات کر رکھے ہیں۔ ان کی مراد ممکنہ طور پر یہ تھی کہ حج کے دوران تعینات کیے گئے اہلکار بہت تجربہ کار نہیں تھے۔ 

یہ بات بھی اہم ہے کہ صرف دو ہفتے قبل مکہ میں مسلمانوں کے مقدس ترین مقام مسجد الحرام کے احاطے میں تعمیر و توسیع کے لیے نصب ایک کرین گر گئی تھی، جس کے نتیجے میں قریب 110 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔