1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ممکنہ دہشت گردانہ حملے: جرمن شہریوں کی اکثریت خوفزدہ نہیں

مقبول ملک27 مارچ 2016

ایک تازہ سروے کے مطابق ہمسایہ یورپی ملک بیلجیم میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے پس منظر میں جرمنی میں عام شہریوں کی اکثریت اپنے ملک میں بھی دہشت گردانہ کارروائیوں کے خطرات کے باوجود کسی خوف کا شکار نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1IKW6
Symbolbild Deutschland im Fadenkreuz Terrorismuswarnung
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن دارالحکومت برلن سے اتوار ستائیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ایک تازہ عوامی جائزے کے آج شائع ہونے والے نتائج کے مطابق جرمن شہریوں نے یہ اعتراف تو کیا ہے کہ جرمنی میں اس سال ممکنہ طور پر دہشت گرد کوئی نہ کوئی مسلح حملے کر تو سکتے ہیں تاہم وہ ایسی ممکنہ کارروائیوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔

جرمنی کے کثیر الاشاعت روزنامے ’بِلڈ‘ نے اپنی اتوار کی اشاعت میں لکھا کہ اس سروے کے لیے مختلف شہروں میں 500 سے زائد نمائندہ شہریوں سے ان کی رائے لی گئی۔ ان میں سے 56 فیصد نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر کسی بھی طرح کی ممکنہ دہشت گردی کے باعث کسی خوف میں مبتلا نہیں ہیں۔

اس کے برعکس 42 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ جرمن معاشرے میں بھی دہشت گردی کا امکان موجود ہے اور وہ اس حوالے سے ذاتی طور پر کسی بھی خونریز حملے کا شکار ہو جانے سے خوف محسوس بھی کرتے ہیں۔

اس عوامی جائزے کے نتائج کے ساتھ ہی روزنامہ ’بِلڈ‘ نے وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کے ایک خصوصی انٹرویو کی تفصیلات بھی شائع کیں، جن میں وزیر داخلہ نے یقین دہانی کرائی کہ ملکی انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ملک میں کسی دہشت گردانہ حملے کا کوئی فوری اور شدید خطرہ موجود ہے۔

Deutschland Innenminister Thomas de Maziere
جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئرتصویر: picture-alliance/dpa

ڈے میزیئر نے کہا، ’’دہشت گردی کے عمومی خطرات میں اضافے کے باعث صورت حال تشویش میں مبتلا کر دینے والی تو ہے لیکن فی الحال ایسے کسی اقدام کی بھی کوئی ضرورت نہیں کہ بڑے عوامی اجتماعات منسوخ کر دیے جائیں یا اس طرح کے کوئی دوسرے فیصلے کیے جائیں۔

اپنے اس انٹرویو میں جرمن وزیر داخلہ ڈے میزیئر نے تاہم ایک بار پھر اپنے اس مطالبے کو دہرایا کہ یورپی یونین کی سطح پر رکن ملکوں کی سکیورٹی ایجنسیوں کے مابین معلومات کے بہتر اور جلد تبادلے کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

وزیر داخلہ نے اپنے موقف کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا، ’’یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ شدید نوعیت کے خطرات کے وقت پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن یا شہریوں کی نجی معلومات کے تحفظ سے کہیں زیادہ اہم خود شہریوں کا تحفظ ہوتا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں