ملک بدری کے سخت مجوزہ قوانین پر جرمن پارلیمنٹ میں تنقید
24 مارچ 2017جمعرات کے روز جرمن وزیر ِ داخلہ تھوماس ڈی میزئیر پناہ گزینوں کے حوالے سے ایک مجوزہ مسودہ قانون پیش کرنے جرمن پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ قانون کے اس مجوزہ ڈرافٹ کی رو سے جرمنی آنے والے تارکینِ وطن کے لیے سخت قوانین کا اطلاق کیا جا سکے گا۔
ڈی میزئیر کا کہنا تھا کہ جرمن عوام صرف اسی صورت میں اپنی حکومت کی مہاجرین کے لیے پناہ کی فراخدلانہ پالیسی کی حمایت کرے گی اگر جرمن حکومت ملک بدری کے قوانین کا سختی سے نفاذ کرے اور تارکینِ وطن کی جانب سے لاحق ممکنہ خطروں سے جرمن سوسائٹی کا تحفظ کرے۔
ڈی میزئیر نے مزید کہا، ’پناہ حاصل کرنا اور اپنے گھروں کو واپس لوٹنا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔‘‘ ڈی میزئیر نے بارڈرز پر مہاجرین کی شناخت کے لیے اُن کے موبائل فونوں کا ڈیٹا استعمال کرنے کی متنازعہ تجویز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی ملک کی سرحد میں داخل ہوتے وقت کسٹم چیکینگ کی جاتی ہے۔
جرمن کابینہ میں حزب ِ اختلاف نے تاہم مجوزہ مسودہء قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اِس کا مقصد صرف جرمنی سے ملک بدریوں کی تعداد بڑھانا ہے اور یہ نہ صرف جرمن قانون بلکہ پناہ گزینوں کے وقار کی بھی توہین کے مترداف ہے۔ پارلیمنٹ میں بائیں بازو کی جماعت یا ’ دی لنکے‘ کی پیٹرا پاؤ کا کہنا تھا، ’’ اس مسودہ قانون کا مقصد ملک بدری کے حق میں ایک عمومی مزاج کو ہموار کرنا ہے اور ایسے لوگوں کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے جو تحفظ کی تلاش میں یہاں آئے ہیں۔‘‘ پیٹرا پاؤ نے یہ بھی کہا کہ ایک تہائی پناہ گزین اٹھارہ سال سے کم عمر کے ہیں۔ گرین پارٹی کی رکنِ پارلیمنٹ لوئیسے اَمٹسبرگ کا کہنا تھا کہ یہ مسودہ قانون عجلت میں لکھاگیا ہے اور مہاجرین کی طرف غیر منصفانہ ہے۔
دوسری جانب مہاجرین کی وکالت کرنے والے گروپس نے بھی تھوماس ڈی میزئیر کی جانب سے پیش کردہ اس مجوزہ قانونی مسودے پر کڑی تنقید کی ہے۔ جرمنی میں پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’ پَرو ازِیل‘ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قانونی مسودہ ایک مشین کے مانند ہے جس کے پہیوں تلے تحفظ کی تلاش میں آئے افراد کو کچل دیا جائے گا۔