ملک ایک بڑے مسئلے میں ہے، ڈیوڈ کیمرون
19 جولائی 2011نیوز کارپوریشن کے سربراہ روپرٹ مرڈوک اور ان کے بیٹے جیمز مرڈوک اور اس اخبار کی سابق ایڈیٹر انچیف اور حال ہی میں نیوز کارپوریشن کی برطانوی شاخ نیوز انٹرنیشنل کی سربراہی سے مستعفی ہونے والی ربیکا بروکس ٹیلی فون ہیکنگ اسکینڈل کے حوالے سے برطانوی ارکان پارلیمان کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔ برطانوی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے جیمز مرڈوک نے فون ہیکنگ اسکینڈل کے حوالے سے معذرت طلب کی ہے۔ اس سے قبل روپرٹ مرڈوک ایک اخباری اشتہار کے ذریعے اس حوالے سے معافی مانگ چکے ہیں۔
فون ہیکنگ کرانے والے اخبار نیوز آف دی ورلڈ کو بند کیا جاچکا ہے۔ اس وقت اس اخبار کے سربراہ اور ایڈیٹر انچیف کے استعفوں کے باوجود نہ تھمنے والا یہ اسکینڈل اب دنیا کے بڑے میڈیا گروپس میں سے ایک نیوز کارپوریشن کے سربراہ روپرٹ مرڈوک اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے لیے بھی مشکلات کی وجہ بنا ہوا ہے کیونکہ اس اسکینڈل کو برطانوی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا جا رہا ہے۔
خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ اسکینڈل برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے سیاسی کیریئر کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون کو روپرٹ مرڈوک کے ساتھ روابط کی بنا پر شدید سیاسی مشکلات کا سامنا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم خود بھی کہہ چکے ہیں کہ ملک ’ایک بڑے مسئلے‘ میں ہے۔ اسی باعث انہوں نے اپنا دورہ افریقہ بھی مختصر کر دیا ہے۔
نائجیریا کے صدر گڈ لک جوناتھن کے ساتھ لاگوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا: ’’یہ ایک بڑا مسئلہ ہے، لیکن ہم ایک بڑا ملک ہیں اور ہم اس کو حل کر لیں گے۔‘‘
ادھر فون ہیکنگ کرانے والے اخبار نیوز آف دی ورلڈ کے سابق صحافی شین ہؤرے پراسرار انداز میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس وقت ہلاکت کی وجوہات کے تعین کے لیے تفتیشی عمل جاری ہے۔
ہؤرے نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم کے پریس چیف اینڈی کولسن کافی عرصے سے فون ہیکنگ سے آگاہ تھے۔ ہؤرے کو اخبار کی انتظامیہ نے سن 2005 میں ملازمت سے برخاست کر دیا تھا۔
برطانیہ کے فون ہیکنگ اسکینڈل کےحوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہوئی کہ لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس کے نائب کمشنر جان ییٹس نے بھی پیر کے روز اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ اتوار 17 جولائی کو لندن کے پولیس کمشنر سر پال اسٹیفنسن نے بھی اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔
روپرٹ مرڈوک اور ان کے بیٹے کی حاضری سے قبل پال اسٹیفنسن بھی برطانوی پارلیمان کی اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ اس موقع پر انہوں نے انکشاف کیا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے 45 میں سے 10 پریس افسر قبل ازیں نیوز انٹرنیشنل کے لیے کام کرتے رہے تھے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک