1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مقدونیہ کے انسانی اسمگلر نئے مہاجرین کی تلاش میں

امتیاز احمد8 فروری 2016

بلقان روٹ پر انسانی اسمگلر ایک مرتبہ پھر سرگرم ہو رہے ہیں۔ مقدونیہ کے سرحدی علاقے لویانے میں اسمگلروں، کرپٹ پولیس اہلکاروں اور ان کے مدد گاروں کا ایک مکمل نیٹ ورک تشکیل پا چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HrW8
Serbien Das Dorf der Schlepper
تصویر: DW/N. Rujević

لویانے نامی سرحدی گاؤں میں داخلے سے پہلے اس کے نام کی کوئی شیلڈ تو نظر نہیں آتی لیکن اس گاؤں کی مقامی مسجد سفید مینار دور ہی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ گاؤں میں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے بس کبھی کبھار کہیں نہ کہیں سے کسی مرغی کی آواز سنائی دے جاتی ہے۔

اس دیہات کے ایک مقامی چائے خانے میں بیٹھے دو نوجوانوں کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہاں کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، نہ کام ہے، نہ کاج۔‘‘ اس نوجوان کے مطابق لویانے میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ دیہات یورپ بھر میں مشہور ہو چکا ہے اور اسے ’’انسانی اسمگلروں کا گاؤں‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ گاؤں مقدونیہ اور سربیا کی بالکل سرحد پر واقع ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کو پہلے اس گاؤں میں لایا جاتا ہے، جہاں وہ ایک رات قیام کرتے ہیں اور بعد ازاں انہیں مغربی یورپ کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔

یہاں ایک رات قیام کے بدلے دس یورو ( تقریبا گیارہ سو روپے) وصول کیے جاتے ہیں جبکہ جانوروں کے باڑے میں رات گزارنے کے لیے تارکین وطن سے فی کس پانچ یورو وصول کیے جاتے ہیں۔ چائے خانے میں بیٹھے ہوئے شخص ایک قریبی کمرے میں بیٹھے ہوئے چند لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آپ خود دیکھ سکتے ہیں یہ صرف مراکش کے چند لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔ اس سے پہلے بھی صورتحال کچھ ایسی ہی تھی۔ حقیقت اس کے برعکس ہے، جیسا کہ ہمارے گاؤں سے متعلق یورپی میڈیا میں بیان کی جا رہی ہے۔ ‘‘

اس نوجوان کا مزید کہنا تھا، ’’یہاں پر رات گزارنے کی اجازت صرف وہی لوگ دیتے ہیں، جو انتہائی غریب ہیں کیونکہ خراب موسم کی وجہ سے اس مرتبہ فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔‘‘

اس دیہی کمیونٹی کے سربراہ سیلامی میمیتی کا کہنا تھا کہ اس کھیل میں ’بڑے مالکوں‘ کا تعلق البانیہ سے نہیں ہے بلکہ ’بڑی مچھلیوں‘ کا تعلق ان ممالک سے ہے، جہاں سے یہ تارکین وطن اور مہاجر آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان انسانی اسمگلروں کے یونان سے اسکینڈے نیویا کے ممالک تک نیٹ ورک کام کر رہے ہیں۔ مہاجرین کا سیلاب گزشتہ دس برسوں سے لویانے دیہات میں دیکھا جا رہا ہے لیکن اس میں تیزی اس وقت آئی جب افغانوں نے اس راستے سے یورپ جانا شروع کیا، ’’چند ماہ پہلے تک یہاں مہاجرین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ایک ہزار سے زائد تارکین وطن اس گاؤں میں کھلے عام گھوم پھر رہے تھے۔ مقامی لوگوں کو تو ان سے کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ان کی آپس میں لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں، یا ان لوگوں سے جو ان کو یہاں تک لے کر آئے تھے۔ کیونکہ انسانی اسمگلر ان کے ساتھ دھوکا بھی کرتے ہیں اور کئی مرتبہ تو لوگ زخمی بھی ہوئے۔‘‘

مقدونیہ کے حکام اس جگہ پر بے بس نظر آتے ہیں لیکن ایک اعلیٰ عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ اس کاروبار میں سیاستدان اور اعلیٰ سطح کے پولیس اہلکار ملوث ہیں اور ان کو پیسے کی صورت میں باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔ مقدونیہ کے مشہور مقامی اخبار ویجر کے مطابق، ’’اداروں کو مکمل معلومات ہیں کہ انسانی اسمگلر موجود ہیں لیکن وہ اس کا اقرار نہیں کرنا چاہتے۔‘‘