1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر مہاجرين کا احتجاج جاری

عاصم سليم23 نومبر 2015

بلقان ممالک سے گزرنے والے مہاجرين کی تعداد محدود کرنے سے متعلق حاليہ اقدامات کے تناظر ميں مقدونيہ اور يونان کی درميانی سرحد پر ہزارہا پناہ گزين جمع ہو چکے ہيں۔ حکام نے خبردار کيا ہے کہ وہاں سکيورٹی خدشات موجود ہيں۔

https://p.dw.com/p/1HAZ6
تصویر: Reuters/O. Teofilovski

مقدونيہ کے صدر Gjorge Ivanov نے کہا کہ گيويگليا کی سرحدی گزر گاہ مغربی يورپ پہنچنے کے خواہاں پناہ گزينوں کے ليے رکاوٹ بن گئی ہے، جہاں سے کچھ ہی مخصوص مہاجرين کو آگے جانے ديا جاتا ہے۔ نتيجتاً وہاں پناہ گزينوں کی ايک بڑی تعداد اکھٹی ہو گئی ہے اور سکيورٹی کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہيں۔ مقدونيہ کے صدر کے بقول ايسے ميں ’مستحق پناہ گزينوں‘ اور معاشی مقاصد کے ليے يورپ آنے والے تارکین وطن کے درميان تصادم کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔ اسی طرح تارکين وطن اور مقامی حکام يا مقامی آبادی کے مابين ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہو سکتے ہيں۔

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر پاکستان، بنگلہ ديش اور ايران سے تعلق رکھنے والے قريب ايک ہزار پناہ گزينوں کو مقدونيہ کی سرحد پر روک ليا گيا۔ يہ اقدام پچھلے ہفتے جمعرات کو متعارف کرائے جانے والے سخت قوانين کی نشاندہی کرتا ہے، جس کے تحت معاشی مقاصد کے ليے يورپ پہنچنے کے خواہاں مہاجرين کو مشرقی يورپ ميں ہی روکا جا رہا ہے جبکہ صرف شام، عراق اور افغانستان کے پناہ گزينوں کو آگے بڑھنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں ہونے والے حاليہ دہشت گردانہ واقعات کے تناظر ميں اس حوالے سے شکوک و شبہات ميں بھی اضافہ ريکارڈ کيا گيا ہے کہ پناہ گزينوں کی صفوں ميں شامل ہو کر دہشت گرد بھی يورپ آ سکتے ہيں۔

مقدونيہ کی سرحد پر روکے جانے والے پناہ گزينوں نے اس سلسلے ميں مظاہرہ جاری رکھا ہوا ہے۔ کئی نے ايسے بينرز اٹھا رکھے ہيں جن پر لکھا ہے ’ہم پيرس کے ليے افسردہ ہيں اور ہم خطرناک نہيں۔‘ ان پناہ گزينوں نے پچھلے چار دن سے مظاہرہ جاری رکھا ہوا ہے۔

Flüchtlinge Grenzbarrieren Grenze zwischen Mazedonien Griechenland
تصویر: Reuters/O. Teofilovski

مقدونيہ کے صدر  آوانوو نے اتوار کو يورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کے ساتھ ملاقات کے بعد مالی امداد کی قلت اور معلومات کے تبادلے کے حوالے سے يورپی يونين پر تنقيد بھی کی۔ اسی بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے انہوں نے سکيورٹی خدشات کا ذکر بھی کيا۔ ان کے بقول مقدونيہ سرحد پر صرف دو ہزار تارکين وطن کو عارضی رہائش فراہم کر سکتا ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ مشرق وسطٰی، شمالی افريقہ اور ديگر شورش زدہ خطوں سے لاکھوں پناہ گزين يونان او پھر بلقان ممالک سے گزرتے ہوئے مغربی يورپ پہنچ چکے ہيں۔ تاہم گزشتہ جمعرات کے دن سے بلقان ممالک سے گزرنے والے روٹ پر موجود ملکوں نے سخت تر اقدامات پر عملدرآمد شروع کر رکھا ہے۔ سلووينيہ، سربيا اور مقدونيہ نے اعلان کيا کہ صرف شورس زدہ ملکوں کے مہاجرين کو ہی آگے بڑھنے ديا جائے گا۔