’مغوی بچے نہیں‘، پاکستانی طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی
3 ستمبر 2011پاکستانی حکام نے جمعہ کو کہا تھا کہ افغان طالبان باغیوں نے چالیس بچوں کو بدھ کے دن اس وقت اغوا کیا تھا، جب وہ غلطی سے باجوڑ ایجنسی سے ملحقہ افغان سرحد پار کر گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہفتے کو پاکستانی طالبان نے حکومت پاکستان کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ ان افراد کے مستقبل کا فیصلہ باجوڑ ایجنسی کے طالبان خود کریں گے۔ طالبان باغیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اغوا کے گئے بچے نہیں بلکہ ان کی عمریں بیس سے تیس برس کے درمیان ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان احسان اللہ احسان نے ایک نامعلوم جگہ سے فون کر کے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا،’ ہم نے ان افراد کو یرغمال بنایا ہے۔ ان کے والدین اور قبائل ہمارے ساتھ لڑائی میں حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں‘۔ احسان اللہ احسان نے مزید کہا کہ پچیس سے تیس نوجوان ان کے قبضے میں ہیں تاہم اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں رکھے گئے ہیں۔
پاکستانی طالبان باغیوں کے بقول انہوں نے بڑے پیمانے پر اغوا کی یہ واردات پہلے سے ہی تیار کر رکھی تھی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ عید الفطر کے موقع پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد باجوڑ کے سرحدی علاقوں میں سیر وتفریح کی غرض سے آئے گی۔
زیادہ تر مغویوں کا تعلق مامون قبیلے سے ہے، جو نہ صرف القاعدہ کے نظریات کے مخالف ہیں بلکہ وہ طالبان تحریک کے خلاف فوجی آپریشن میں بھی پاکستانی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اس قبیلے نے ایک جنگجو دستہ بھی بنا رکھا ہے، جو اپنے طور پر طالبان باغیوں کی انتہا پسندانہ کارروائیوں کے خلاف کمر بستہ ہے۔
بتایا گیا ہے کہ مقامی قبائلی عمائدین ان افراد کی بازیابی کے لیے طالبان باغیوں کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین