1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی موصل میں داعش کے حملے میں ایک سو سے زائد ہلاکتیں

عابد حسین
23 مارچ 2017

عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل میں داعش کے دوہرے بم دھماکوں میں ایک سو سے زائد انسان جاں بحق ہوئے ہیں۔ دوسری جانب عراقی فوج مغربی موصل کی بازیابی کا فوجی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZqQ8
Syrien Kämpfe um Kobane 18.10.2014
تصویر: Reuters/K. Pfaffenbach

ایک عراقی فوجی افسر کے مطابق بدھ بائیس مارچ کو موصل کے ایک رہائشی علاقے میں ہونے والے زور دار دھماکے میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ موصل کے فوجی آپریشن میں شامل عراقی فوج کے سینیئر افسر بریگیڈیئر محمد الجبوری نے بتایا ہے کہ مغربی موصل کے قریب واقع رہائشی علاقے الجدیدہ میں کیے گئے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حملے میں اب تک ایک سو آٹھ نعشیں ملبے تلے سے نکالی جا چکی ہیں۔

Irak Selbstmordanschlag Autobombe südlich von Bagdad
دھماکے سے تباہ ہونے والے مکانات میں امدادی کام جاری ہےتصویر: Getty Images/AFP/H. Hamdani

 عینی شاہدین کے مطابق الجدیدہ میں کیا گیا یہ بارودی دھماکا بدھ بائیس مارچ کی شام میں کیا گیا تھا۔ کچھ فوجی ماہرین  نے اندازہ لگایا ہے کہ قوی امکان یہی ہے کہ یہ بم دھماکے الجدیدہ میں بارودی ڈیوائسز کا ایک جال بچھا کر کیے گئے ہیں۔ امدادی ٹیموں کو عمارتوں کے ملبے سے لاشوں کے ٹکڑے نکالنے میں انتہائی مشکل کا سامنا ہے۔

 ایک مبصر گروپ، موصل آئی نے ہلاک شدگان کی تعداد 130 بیان کی ہے۔ ان ہلاکتوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ موصل آئی کے مطابق یہ ہلاکتیں دوہرے بم دھماکوں کے باعث ہوئی ہیں۔ اسی مبصر گروپ کے مطابق ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے بے شمار افراد کو  تین مکانات میں پہلے اکھٹا کیا اور ان کو دو بم دھماکوں سے اڑا دیا۔ اس گروپ نے یہ بھی بتایا کہ بم دھماکوں کے بعد عمارت پر عراق کی فیڈرل پولیس کے راکٹ بھی آ کر گرے تھے۔

انیس فروری سے عراقی فوج نے مغربی موصل کا قبضہ چھڑانے کا آپریشن شروع کیا ہے۔ موصل شہر کے اسی حصے میں تنگ اور گنجان آباد قدیمی علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی UNHCR نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مغربی موصل کے قدیمی حصے میں لڑائی کی وجہ سے چار لاکھ افراد محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔مغربی موصل کا آپریشن مشرقی حصے سے کہیں زیادہ پیچیدہ قرار دیا گیا ہے کیوں کہ تنگ گلیوں اور ایک دوسرے سے جڑے مکانات کی وجہ سے جہادیوں کی سرکوبی میں فوج کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔