1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی ممالک سے نکالے گئے مہاجرین کا بسیرا بلقان ریاستوں میں

عاطف بلوچ، روئٹرز روئٹرز
16 فروری 2017

مغربی ممالک سے متعدد مہاجرین کو بلقان ریاستوں میں واپس بھیجا گیا، اس کے علاوہ متعدد مہاجرین مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش میں بھی بلقان ریاستوں میں پھنس گئے۔ مگر اب یہ افراد بلقان ریاستوں ہی میں اپنا مستقبل تلاش کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2Xgsw
Griechenland Flüchtlingskinder im Ritsona-Camp
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

16 سالہ افغان مہاجر اشکان بارک زندگی کی دوڑ دھوپ سے تنگ آ چکا ہے۔ پچھلے سال وہ طالبان کی کارروائیوں کے تناظر میں فرار ہوا، انسانوں کے اسمگلروں کو پیسے دے کر بحیرہء روم عبور کر کے یورپ پہنچ گیا۔ مگر کروشیا پہنچا تو نو ماہ تک ایک مہاجر بستی میں رہتے ہوئے اشکان نے جرمنی پہنچنے کا خواب دیکھنا ہی ختم کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اب وہ کروشیا ہی میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔

’’مجھے صرف امن چاہیے، تاکہ میں طالبان سے دور اپنی زندگی جی سکوں۔ میرے لیے یہ اہم نہیں کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ میں کروشیا ہی میں رہنا چاہتا ہوں۔ میں سفر سے تنگ آ چکا ہوں۔‘‘

Serbien gestrandete Flüchtlinge auf dem Weg in die EU in Belgrad
بلقان کے خطے میں سینکڑوں مہاجرین موجود ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic

اشکان کا مزید کہنا ہے، ’’میں باہر جا سکتا ہوں اور بلاخوف چہل قدمی کر سکتا ہوں۔ یہاں کسی بندوق کسی جنگ کا خطرہ نہیں۔‘‘

مغربی بلقان ریاست کروشیا میں تقریبا ساڑھے نو سو مہاجرین موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان میں زیادہ تر تعداد افغان، پاکستانی اور شامی باشندوں کی ہے، جو جنگوں اور غربت سے تنگ آ کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔

گو کہ یورپی یونین کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کروشیا میں بہت کم مہاجرین موجود ہیں، تاہم کروشیا کی وزارت داخلہ کے مطابق مغربی ممالک سے بہت سے تارکین وطن کی کروشیا آمد متوقع ہے، کیوں کہ بہت سے افراد نے مغربی یورپی ممالک پہنچنے سے قبل کروشیا میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی۔

یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے عروج کے دور میں کروشیا سے قریب ساڑھے چھ لاکھ افراد گزرے تھے اور کروشیا سمیت بلقان ریاستوں ہی کے راستے جرمنی اور دیگر مغربی اور شمالی یورپی ممالک پہنچے تھے۔