1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی طرز کی جمہوریت افغانستان کے لئے موزوں نہیں، گٹن بیرگ

26 دسمبر 2009

جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سوگوٹن بیرگ نے کہا ہے کہ افغانستان میں مغربی طرز کی جمہوریت قائم نہیں کی جا سکتی۔ تاہم انہوں نے وہاں پائیدار امن کو ممکن قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/LE5u
افغان صدر حامد کرزئیتصویر: AP

جرمن اخبار 'بِلڈ ام زونٹاگ' کے ساتھ ایک انٹرویو میں گوٹن بیرگ نے کہا ہے کہ افغانستان کو مغربی اصولوں کے تحت جمہوری ملک بنانے کی کوشش چھوڑ دی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہ افغانستان کی تاریخ اور ملکی نوعیت کے تناظر میں اس کا مغربی اصولوں کی مانند بننا ممکن نہیں۔

تاہم گوٹن بیرگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہاں پائیدار امن ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لئے طالبان کے اعتدال پسند عناصر کو مخصوص شرائط کی بناء پر حکومت میں شامل کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے لئے انسانی حقوق کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔

Berlin Bundestag Kundus Debatte Guttenberg
جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سو گوٹن بیرگتصویر: AP

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق گوٹن بیرگ کے اس بیان سے افغان مشن کے لئے جرمنی کے عسکری تعاون پر شکوک و شبہات مزید بڑھیں گے اور برلن حکومت کی جانب سے اس آپریشن کے لئے اضافی فوجیوں کے فیصلے پر سیاسی بحث طول پکڑے گی۔

خیال رہے کہ افغانستان میں تعینات نیٹو کے فوجیوں کی تعداد کے لحاظ سے جرمنی تیسرا بڑا ملک ہے۔ پہلے نمبر پر امریکہ اور دوسرے پر برطانیہ ہے۔

واشنگٹن حکومت چاہتی ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں اس کے اتحادی ممالک افغان مشن کے لئے کم از کم مزید پانچ ہزار فوجیوں کی منظوری دیں۔ تاہم رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق جرمنی میں ایسے کسی فیصلے پر مخالفت پائی جاتی ہے اور اس کے عوام افغانستان سے اپنے فوجیوں کا انخلاء چاہتے ہیں۔

جرمنی کی جوائنٹ پروٹسٹنٹ کلیسا نے ایک حالیہ بیان میں افغانستان سے ملکی فوجیوں کے انخلاء پر زور دے چکی ہے۔ کلیسا کی سربراہ مارگوٹ کَیس مان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تعینات جرمنی کے چار ہزار چار سو فوجیوں کو ایک واضح اور باترتیب حکمت عملی کے تحت واپس بلایا جائے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جنگ کبھی جائز نہیں ہوتی اور افغانستان میں جاری جنگ کا بھی کوئی جواز نہیں۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں