معمر قذّافی افریقی یونین کے سربراہ منتخب
2 فروری 2009ایتھوپیا کے دارلحکومت آدیس ابابا منعقدہ ترپّن ممالک پر مشتمل افریقی یونین کے پیر کے روز ہوئے ایک اجلاس میں قذّافی کو ایک برس کے لیے تنظیم کا نیا سربراہ منتخب کیا گیا۔ معمر قذّافی کے مطابق وہ بعض افریقی رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود ریاست ہائے متحدہ افریقہ کے قیام کے لیے کوششیں کریں گے۔
خود کو ’بادشاہوں کا بادشاہ‘ کہنے والےاور ماضی میں سخت گیر امریکہ مخالف نظریات کے حامل معمر قذّافی افریقی یونین کے سربراہ ایک ایسے وقت منتخب ہوئے ہیں جب برّاعظم افریقہ کو ایک جانب دہشت گردی، فرقہ واریت، سیاسی و معاشی عدم استحکام، مذہبی انتہا پسندی اور غربت و افلاس جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے تو دوسری جانب معمر قذّافی اور امریکہ کے درمیان بقول سابق امریکی وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس دوستی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قذّافی اس دوستی کو افریقہ کے استحکام کے لیے استعمال کر پائیں گے؟
افریقی یونین کا اجلاس آج بھی جاری رہے گا۔ پیر کے روز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سب سے زیادہ تشویش میڈاگاسکر کے سیاسی بحران پر ظاہر کی جہاں اقتدار کی رسّہ کشی میں اب تک اڑسٹھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ بان کی مون نے سوڈان کے صدر عمر البشیر سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی عدالت برائے جنگی جرائم کے سامنے پیش ہوں۔ سوڈانی صدر پر نسل کشی کے الزامات ہیں۔ مگر عمر البشیر بہرحال اجلاس میں افریقی رہنماؤں سے کم از کم ایک سال تک جنگی عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے کی گارنٹی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
اقتصادی طور پر تقریباً دیوالیہ زمبابوے میں گو کہ صدر مگابے اور حزبِ مخالف رہنما چوانگیرائی کے درمیان شراکت اقتدار پر طویل عرصے سے جاری رسّہ کشی کے بعد سمجھوتہ ہوگیا ہے تاہم ایسا ہی ایک سمجھوتہ گزشتہ برس ستمبر میں بھی ہوا تھا جو چند ہفتے بھی نہ چل سکا۔ اب بھی اس نئے سمجھوتے کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔
جمہوریہ کانگو اور صومالیہ میں خانہ جنگی ہنوز جاری ہے اور ان علاقوں میں اقوامِ متحدہ نے اپنی امن افواج تعینات کر رکھی ہیں۔ مجموعی طور پر افریقہ بذاتِ خود ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے نہ تو افریقی یونین یا اس کے نئے سربراہ چشم پوشی کر سکتے ہیں اور نہ ہی اقوام ِ متحدہ اور مغربی طاقتیں۔
دوسری طرف نئے امریکی صدر باراک اوباما سے افریقی ممالک کو اس لیے زیادہ امید ہے کہ ان کے والد کا تعلق کینیا سے تھا اور وہ برِ اعظم میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں۔ مگر جو امریکہ اوباما کو ورثے میں ملا ہے وہ اس وقت خود اقتصادی چیلنجز سے نبردآزما ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کی رائے ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ شاید افریقہ میں زیادہ دلچسپی نہ لے سکے۔
پیر کے روز افریقی یونین کے نئے چیئرمین معمر قذّافی جب اجلاس میں تشریف لائے تو انہوں نے سونے کی کشیدہ کاری سے متزیئن چوغہ پہن رکھا تھا۔ ان کے علاوہ افریقہ کے سات مزید حکمرانوں یا بادشاہوں نے بھی شاہانہ لباس ذیبِ تن کر رکھا تھا۔ اس صورتِ حال میں دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کے سب سے غریب برِ اعظم کے یہ شہنشاہ خطّے کے لیے کیا کرتے ہیں۔