معذورعبدالباسط کی سزائے موت پر عملدرآمد چوتھی بار ملتوی
25 نومبر 2015سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر ممنون حسین نے یہ احکامات عبدالباسط کی معذوری کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری کیے ہیں۔ عبدالباسط کی پھانسی پر عمل درآمد میں التوا کا یہ فیصلہ چوتھی بار کیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عبدالباسط کو آخری وقت پر پھانسی نہ دینے کے فیصلے میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کی طرف سے اسلام آباد حکومت پر کی جانے والی تنقید بھی حکام نے اپنی نظر میں رکھی ہو گی۔
اگر عبدالباسط کو پھانسی دے دی جاتی تو یہ رواں سال کے دوران پاکستان میں مجرموں کو دی جانے والی 300 ویں سزائے موت ہوتی۔ عبدالباسط کی سزائے موت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ویل چیئر پر بیٹھا یہ معذور شخص پھانسی کے پھندے تک کس طرح پہنچ سکتا ہے۔ اس سے قبل چلنے پھرنے سے قاصر سزائے موت کے قیدی عبدالباسط کو 22 ستمبر کی صبح پھانسی دی جانی تھی تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔
منگل کی شام میں صدر پاکستان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے عبدالباسط کی سزائے موت کو دو ماہ کے لیے ملتوی کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی صدر ممنون حسین نے عبد الباسط کی صحت کی صورتحال کی مکمل چھان بین کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
عبد الباسط کی والدہ نصرت پروین نے اپنے بیٹے کی موت کی سزا پر عملدرآمد سے پہلے آخری لمحات میں سزا کے ملتوی ہونے کے اعلان پر دلی مُسرت کا اظہار کرتے ہوئے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،’’ ہمیں ٹیلی وژن کی خبروں سے یہ اطلاع ملی کے صدر پاکستان نے میرے بیٹے کی پھانسی کی سزا کو دو ماہ کے لیے ملتوی کر نے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ ہم صدر کے اس اعلان پر بہت خوش ہیں‘‘۔
معذور مجرم کی والدہ نے یہ بھی کہا کہ اس خبر کی تصدیق جیل حکام نے بھی کر دی۔ باسط کے گھر والوں نے تاہم امید ظاہر کی ہے کہ عبدالباسط کی سزا کو دو ماہ سے زیادہ کے لیے ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔ قبل ازیں باسط کی بہن عاصمہ مظہر نے صدر ممنون حسین سے اپنے معذور بھائی کی جان بخشی کی اپیل کی تھی۔
عاصمہ مظہر نے اے لیف پی کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ وہ منگل کو اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے بھائی سے ملنے گئی تھیں۔ یہ سوچ کر کہ یہ اُن کی آخری ملاقات ہوگی۔ اُن کا کہنا تھا،’’ باسط بہت اُداس اور چُپ چُپ تھا۔ اُس نے ہمیں بتایا تھا کہ جیل کے حکام نے آ کر اُس کے معذور جسم کی پیمائش کر لی ہے‘‘۔ عاصمہ کے بقول ملاقات کے وہ لمحات اُن کے لیے بہت کٹھن تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ دسمبر میں پشاور کے ایک اسکول میں طالبان کے ایک سفاکانہ حملوں کے بعد پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد کی بحالی سے اب تک 299 افراد کو سزائے موت دی جا چُکی ہے.