1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری نوجوانوں کی اکثریت سیاست سے دور

1 جولائی 2010

مصر کے نوجوانوں کی اکثریت ملک کے سیاسی نظام اور انتخابی سسٹم پر بالکل یقین نہیں رکھتی اور نہ ہی ان میں اسے بدلنے کی کوئی خواہش پائی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/O8KM
اونٹ پر سوار یہ مصری نوجوان سیاحوں کی تلاش میں ہےتصویر: AP

مصر کی نوجوان نسل کے سیاسی رجحانات کے بارے میں اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں چونکا دینے والے نتائج سامنے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق سیاست سے نوجوانوں کی دوری کی ایک اور وجہ عوامی سرگرمیوں کے حوالے سے سکیورٹی سروسز کی عدم رواداری بھی ہے۔

Internationale Irak-Konferenz in Scharm el Scheich Ägypten
ایک مصری سکیورٹی اہلکارتصویر: AP

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی یہ سالانہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب مصر میں ایک چھوٹی سی سطح پر ہی سہی، لیکن مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان معمولی نوعیت کے مظاہروں میں آئندہ کے صدارتی انتخابات سے قبل ملکی سیاست میں تبدیلی کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن اس ملک میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے معمول نہیں ہیں۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مصری نوجوانوں کی اکثریت ملک کے سیاسی نظام اور انتخابی سسٹم کی تبدیلی کے حوالے سے متحرک نہیں ہے۔ مصر کی کُل آبادی 78 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ اٹھارہ تا انتیس برس کی عمروں کے نوجوان اس آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ بنتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ مصری نوجوانوں کے نزدیک جمہوری نظام کی اہمیت تو ہے لیکن اسے مضبوط بنانے کے عمل کو وہ کوئی ترجیح نہیں دیتے۔ اس رپورٹ کے مطابق سیاسی نظام میں تبدیلی کے بجائے مصری نوجوانوں کی اکثریت اپنے بہتر مستقبل اور آرام دہ لائف سٹائل کے بارے میں زیادہ فکر مند ہے۔

BdT Miss Egypt 2006
بائیس سالہ فوزیہ محمد نے 2006ء میں مصر کی ملکہء حسن کا خطاب حاصل کیاتصویر: AP

اس کی وجوہات آخر ہیں کیا؟

مصر کے سیاسی نظام میں سکیورٹی اداروں کو اتنے اختیارات حاصل ہیں کہ وہ عوامی مظاہروں اور حکومت مخالف سرگرمیوں کو کبھی بھی بآسانی کچل سکتے ہیں۔

بیاسی سالہ صدر حسنی مبارک گزشتہ تین عشروں سے صدارتی عہدے پر براجمان ہیں۔ ان کی حکمرانی کے خلاف آج تک جو بھی چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے ہیں، ملک کی سکیورٹی فورسز نے بے تحاشا طاقت کا استعمال کر کے انہیں کچلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

Bundeskanzler Gehard Schröder und der ägyptische Präsident Hosni Mubarak weihen die Deutsche Universität in Kairo ein
مصری صدر حسنی مبارک سابق جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر کے ہمراہ قاہرہ میںتصویر: AP

اقوام متحدہ نے مصری نوجوانوں کے سیاسی رجحانات کے بارے میں اپنی تازہ رپورٹ تقریباً چار سو گریجویٹس کے ساتھ تبادلہء خیال کے بعد مرتب کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیشتر نوجوان سیاسی سرگرمیوں کو بیکار اور بے سود سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے ملکی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے۔

مصری نوجوانوں کی اکثریت ملک کے انتخابی نظام پر اپنا اعتماد کھو چکی ہے اور اسی لئے وہاں مذہب کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اخوان المسلمین یا ’مسلم بردر ہُڈ‘ مصر کا سب سے بڑا اپوزیشن گروپ ہے لیکن حکومت نے اسے کالعدم قرار دے رکھا ہے۔

اس ملک میں بے روزگاری بھی نوجوانوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق مصر میں نوے فیصد بے روزگار افراد کی عمریں تیس برس سے کم ہیں۔ مصری حکام کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح دس فیصد ہے لیکن تجزیہ کار ان اعداد و شمار سے متفق نہیں ہیں۔

مصر میں سن 1981ء سے نافذ ایمرجنسی قانون کے تحت حکومت مخالف آوازوں کو دبا دیا جاتا ہے اور مشتبہ شرپسند عناصر یا کسی بھی حکومت مخالف کارکن کو غیر معینہ مدت تک کے لئے جیل میں بند کیا جا سکتا ہے۔ شاید مصری نوجوان اس حقیقت سے اچھی طرح آشنا ہیں اور اسی لئے سیاست کے میدان میں کودنے یا سیاست میں سرگرم شرکت کے بجائے وہ دور ہی سے اس کا تماشا دیکھنے کو بہتر سمجھتے ہیں!

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں