مصری قيادت اور مظاہرين کے درميان تنازعہ
13 جولائی 2011مصرکی فوجی کونسل نے اعلان کيا ہے کہ مصر کی تاريخ کے اس نازک مرحلے پر قيادت کو اور مضبوط بنايا جائے گا۔
مصر ميں مظاہروں کا سلسلہ تھمتا دکھائی نہيں ديتا۔ کل شام قاہرہ کی سڑکوں پر ہزاروں افراد نے مظاہرے کيے۔ وہ فوجی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
سورج غروب ہونے کے بعد شہر کے مرکزی حصے ميں واقع تحرير اسکوائر پر جمع ہونے والوں کی تعداد ميں مزيد اضافہ ہونے لگا۔ يہاں جو بينر اور پلے کارڈز ديکھے جا رہے تھے، اُن پر سب سے اوپر جو مطالبہ نظر آتا تھا وہ انصاف کا تہا۔ يہ مطالبات بھی نظر آتے تھے کہ سابق مصری قيادت اور اُس کا سا تھ دينے والوں کو عدالت ميں پيش کيا جائے۔ ايک شخص نے کہا کہ معزول صدر حُسنی مبارک کا احتساب بھی ہونا چاہيے: ’’يہ کيسے ممکن ہے کہ حسنی مبارک کا علاج تو سات ستاروں والے شاندار ہوٹل ميں ہو اور انقلاب کے دوران زخمی ہونے والوں کا علاج خرب حال ہسپتالوں ميں ہو۔ کيا يہ قابل قبول ہے؟ نہيں۔ جس نے بھی چوری اور لوٹ مار کی ہے اور قتل کيے ہيں، اُسے اس کے جرائم کی سزا دی جائے گی۔‘‘
مصر ميں يہ حاليہ احتجاجات جمعہ کو قاہرہ ميں ايک بڑے جلسے اور سوئز اور اسکندريہ ميں مظاہروں کے ساتھ شروع ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے ان ميں مسلسل شدت پيدا ہوتی جارہی ہے۔ اس کے باوجود صورتحال پر سکون ہے، حالانکہ سکيورٹی فورسز منظر عام پر موجود نہيں ہيں اور انقلاب کے دور کی طرح شہريوں کی کميٹياں خود جلسوں اور جلوسوں ميں سکيورٹی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہيں۔ تحرير چوک پر بھی نوجوان مرد اور عورتيں جلسے ميں آنے والوں کی تلاشی ليتے ہيں۔ کچھ لوگوں نے چھرياں لانے کی کوشش کی تھی، جس پر ہنگامہ بھی ہوا تھا۔
صدر حسنی مبارک کے استعفے کے بعد حکومت سنبھالنے والی فوجی قيادت مظاہرين کے اس مطالبے کو تسليم نہيں کر رہی ہے کہ وہ قيادت سے دستبردار ہو جائے۔ وہ پارليمانی انتخابات کرانا، اس کے بعد ايک نيا آئين تيار کرانا اور پھر صدارتی انتخابات کرانے کے منصوبے پر قائم ہے۔
رپورٹ: بٹينا مارکس / شہاب احمد صديقی
ادارت: افسر اعوان