مصری سرحدوں پر سکیورٹی سخت کرنے کا حکم
25 ستمبر 2016بدھ کے روز بحیرہ ء روم میں تارکین وطن کی یورپ کی سمت جانے والی ایک کشتی کے ڈوبنے سے ایک سو ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر کا تعلق مصر سے تھا۔ آج اتوار کے روز مصر کے اخبارات نے صدارتی ترجمان اعلیٰ یوسف کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر السیسی نے اس واقعے کے ذمہ داران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ تارکین وطن سے بھری کشتی مصر کے ساحلی شہر روزیٹا سے کچھ فاصلے پر بدھ کے روز ڈوب گئی تھی۔ قریب ایک سو باسٹھ لاشیں سمندر سے بر آمد کر لی گئی تھیں جبکہ امدادی کارکنوں اور مچھیروں نے ایک سو انہتر افراد کو زندہ بچا لیا تھا۔ مصر کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق کشتی پر چھ سو کے قریب افراد سوار تھے۔
اس سے قبل مصر کے ساحلی شہر روزيٹا ميں اس کشتی کے حادثے ميں ہلاک ہو جانے والوں کے لواحقين جمع ہوئے تھے اور انہوں نے سمندر ميں لاپتہ ہو جانے والوں کی تلاش اور ريسکيو کے کاموں ميں تيزی لانے کے ليے حکام پر زور ديا تھا۔ حادثے میں زندہ بچ جانےوالوں اور ہلاک شدگان کے رشتہ داروں نے مصری کوسٹ گارڈ پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے امدادی کارروائیوں اور لاشوں کی تلاش میں تساہل سے کام لیا۔
ہفتے کی صبح مرنے والوں کے لواحقین نے کوسٹ گارڈ کی ایک چیک پوسٹ پر دھاوا بول دیا تھا۔ یاد رہے کہ حاليہ چند برسوں کے دوران لاکھوں افراد نے غربت اور جنگ کی ہولناکیوں سے فرار حاصل کرنے کے ليے غير قانونی ہجرت کا راستہ اختيار کيا ہے۔ يورپ پہنچنے کے ليے ليبيا سے لاکھوں لوگ اسی طرح انسانی اسمگلروں کا سہارا لے کر بحيرہ روم کا خطرناک سفر طے کرتے ہيں۔
اس دوران ہزاروں افراد لقمہ اجل بھی بن چکے ہيں۔ يورپی يونين کی بارڈر ايجنسی کے مطابق سال رواں کے دوران جنوری سے ستمبر کے درميان قريب بارہ ہزار افراد مصر سے اٹلی پہنچ چکے ہيں جبکہ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران يہ تعداد سات ہزار تھی۔
سن 2016 کے پہلے چھ ماہ کے دوران 2,901 افراد بحيرہ روم ميں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہيں۔