مصری انقلاب میں پہلا قدم اٹھانے والے غنیم کون ہیں؟
10 فروری 2011تیس سالہ غنیم دو بچوں کے باپ ہیں اور انٹر نیٹ سرچ انجن گوگل کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر بھی ہیں۔ غنیم کے انٹرنیٹ بلاگ ’’ہم سب خالد سعید ہیں‘‘ نے مصری نوجوان نسل کو بیدار کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بلاگ مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے خالد سعید کی یاد میں بنایا گیا تھا۔
مصر کے ایک نجی ڈریم ٹیلی وژن کی جانب سے چلائی جانے والی فوٹیج نے مصری عوام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ تصاویر انٹرنیٹ پر آزادی اور جمہورہت کی جنگ لڑنے والے اِسی نوجوان وائل غنیم کی تھیں۔ وہ غم میں ڈوبے اور روتے ہوئے کہہ رہے تھے، ’’ میں ان تمام والدین سے مخاطب ہوں، جن کے لخت جگر ان مظاہروں میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ مجھے ان کی ہلاکت پر بہت افسوس ہے لیکن یہ ہماری غلطی نہیں تھی۔ یہ ان لوگوں کی غلطی ہے، جو طاقت اور قوت کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔‘‘
اس تقریر کے بعد غنیم کو مصری حکومت نے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انہیں 12 روز قید میں رکھنے کے بعد گذشتہ پیر کے روز رہا کر دیا گیا تھا۔ غنیم نے رہائی کے بعد بھی سکون کا سانس نہیں لیا بلکہ وہ منگل کے روز مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مصر کے مرکز میں واقع تحریر اسکوائر پہنچے، جہاں ہزاروں افراد نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ یوں لگتا تھا کہ احتجاجی تحریک کو وہ رہنما مل گیا ہو، جس کی ابھی تک تلاش تھی۔ ایک ایسا کرشماتی رہنما، جس کا چہرہ پوری تحریک کی نمائندگی کرتا ہو۔ غنیم نے چوک میں موجود ہزارہا افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’مصری عوام کو ہیرو بہت محبوب ہیں لیکن میں کوئی ہیرو نہیں ہوں۔ میں تو صرف 12 روز قید میں رہا ہوں۔ ہیرو تو وہ نوجوان ہیں، جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئےاحتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں، جن کو قید کیا گیا اور جو زخمی ہوئے ہیں۔ ہیرو وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔‘‘
غنیم کا نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ تمہارا ملک ہے اور تمہیں ہار نہیں ماننی چاہیے۔ برسر اقتدار طبقہ 30 برس تک اسے اپنی جاگیر سمجھتا رہا ہے۔ فیس بک پیج پر گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد افراد نے غنیم کو مصری نوجوانوں کا ترجمان قرار دیا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: امجد علی