1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری ادیب خالد الخمیسی کی کتاب ’ٹیکسی میں‘ پر تبصرہ

19 فروری 2011

کیا مصر میں اب فوجی آمریت مستقل طور پر قائم رہے گی؟ مصری ادب کے افق پر ابھرنے والے نئے ستارے خالد الخمیسی کو یقین ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ الخمیسی کے خیال میں گزشتہ تین ہفتوں کے مصری انقلاب کے دوران بہت کچھ بدل چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/10KJa
تحریر اسکوائرتصویر: picture-alliance/dpa

قاہرہ کے ٹیکسی ڈرائیوروں کے ساتھ بات چیت پر مشتمل کتاب ’ٹیکسی میں‘ کے خالق مصری ادیب خالد الخمیسی مصری انقلاب کی ترجمانی کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ وہ پُرجوش ہیں لیکن اِس تبدیلی کے نتائج کے حوالے سے محتاط بھی۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ فوج پر اعتماد نہیں کرتے۔ الخمیسی کے مطابق آج کل کی دُنیا میں تہذیب و تمدن سے آشنا کوئی بھی شخص فوج پر اعتبار نہیں کرتا۔ تاہم الخمیسی کے بقول اُنہیں قوم کی طاقت پر اعتماد ہے: ’’مصری قوم نے سیکھ لیا ہے کہ وہ کوئی تبدیلی لا سکتی ہے۔ مصری فوج قوم کے مطالبات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔‘‘

خالد الخمیسی ہر روز تحریر چوک پر جاتے رہے۔ اپنے ساتھ انٹرویو کی درخواست کے جواب میں وہ یہ کہہ کر معذرت کرتے رہے کہ جب تاریخ رقم ہو رہی ہو گی، اُس لمحے وہ وہاں موجود ہونا چاہتے ہیں، ورنہ ساری عمر خود کو معاف نہیں کر سکیں گے۔

Megacity Kairo Bild 8
خالد الخمیسی کی کتاب ٹیکسی ڈرائیوروں کے ساتھ انتڑویوز پر مبنی ہےتصویر: DW

اب مبارک کا دورِ حکومت ختم ہو چکا ہے اور مصر کے دانشوروں اور ادیبوں کو نئے چیلنوں کا سامنا ہے۔ وہ یہ جاننے کے لیے کوشاں ہیں کہ مصر میں اب حالات کون کون سے رُخ اختیار کر سکتے ہیں۔ بہت سے شاعر اور ادیب اِس فکر میں ہیں کہ موجودہ حالات میں اُنہیں لکھنا کیا چاہیے۔ عام شہریوں کی طرح مصری ادیب بھی مستقبل سے بہت بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں اور اُنہیں یقین ہے کہ آنے والا کل آج سے کہیں بہتر ہو گا۔

الخمیسی کے بقول مبارک کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اُس نے مصری قوم کی رُوح کا گلا گھونٹ دیا تھا، اب یہی رُوح مصری قوم میں پھر سے نظر آ رہی ہے اور ایک طرح سے مصری قوم کی پوری نفسیات ہی تبدیل ہو گئی ہے۔

الخمیسی کہتے ہیں کہ مصر میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہضم کرنا مغربی دُنیا کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ اُنہوں نے کہا: ’’جب جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے پہلی مرتبہ مصری انقلاب کے بارے میں رائے ظاہر کی تو اُنہوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور خاص طور پر مصر اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے کو سراہا۔ حقیقت لیکن یہ ہے کہ پچانوے فیصد مصری شہری ستر کے عشرے کے اِن پرانے معاہدوں کے خلاف ہیں۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ مصری جنگ چاہتے ہیں۔ وہ امن کے خواہاں ہیں لیکن وہ ماضی سے بہت زیادہ مایوس بھی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ دوستی کے نتیجے میں اُنہیں فوجی امداد اور چند ایک مراعات یافتگان کے اکاؤنٹس میں آنے والی رقوم کے علاوہ کیا ملا؟ کیا واشنگٹن سے آئے ہوئے آنسو گیس کے وہ گولے، جو قوم پر برسائے گئے؟‘‘

الخمیسی کے مطابق اسرائیل عشروں سے فلسطینیوں کو استحصال کا نشانہ بنا رہا ہے، اِس لیے مصری عوام اسرائیل کے ساتھ امن کے خلاف ہیں۔ الخمیسی نے کہا کہ امریکہ ا ور یورپ مصر میں ایک ایسی جمہوریت کے خواہاں ہیں، جو امریکہ، یورپ اور اسرائیل نواز ہو لیکن ایسا ہونا ناممکن ہے۔

الخمیسی کی تازہ کتاب کا ٹائٹل ہے، ‘ٹیکسی میں’۔ اِس کتاب میں الخمیسی نے قاہرہ کے ٹیکسی ڈرائیوروں کے ساتھ اپنی بات چیت کا احوال قلم بند کیا ہے۔ اِن سارے ٹیکسی ڈرائیوروں کا تعلق معاشرے کے پِسے ہوئے طبقے سے ہے اور سبھی بے حد غریب ہیں۔

Deutschland Heidelberg Universitätsklinik Mubarak Flash-Galerie
مصر کے سابق صدر حسنی مبارکتصویر: picture alliance / dpa

اِن ڈرائیوروں کے پاس مصری انقلاب کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔ اُنہیں ٹیکسی چلا کر اپنی روزی روٹی کمانے کی فکر زیادہ تھی۔ تاہم الخمیسی کے مطابق یہی طبقہ ملک کے مستقبل کا ضامن ہے۔ اِس کتاب کے ذریعے الخمیسی نے قاہرہ کے ٹیکسی ڈرائیوروں کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ الخمیسی کے مطابق اِن میں سے زیادہ تر اَن پڑھ ہیں لیکن اُن کی بصیرت اور دُنیا کے بارے میں اُن کا علم مصر کے اُن عظیم پروفیسروں سے بھی زیادہ وسیع ہے، جو محض امریکیوں اور یورپیوں سے سنی سنائی باتیں دہراتے رہتے ہیں۔

کتاب: ‘‘ٹیکسی میں’’(مصنف: خالد الخمیسی)

تبصرہ: ویرنر بلوخ / امجد علی

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں