مشرق وسطیٰ تنازعہ :اومابا کی دعوت اور عربوں کا ردعمل
6 ستمبر 2009عرب دنيا ميں يہ انديشہ پايا جاتا ہے کہ اس طرح غيرمحسوس طور پراسرائيل کے ساتھ توان کے تعلقات معمول پر آجائيں گے ليکن اسرائيل پھر بھی عرب علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھے گا۔ سعودی وزير خارجہ نے بالکل دوٹوک بات کی اور کہا کہ چھوٹے اقدامات سے امن قائم نہيں ہوسکتا ہے اور نہ ہی اچھی نيت کے مظاہرے سے۔ تاہم، امريکی صدراوباما، عربوں سے يہی مطالبہ کررہے ہيں کہ وہ فلسطينی علاقوں ميں يہودی بستيوں کی تعمير روکنے کے بدلے ميں ايک تعميری جواب کے طور پر اسرائيل کے لئے نيک نيتی کے اظہار کے اقدامات کريں۔ عرب ملکوں کے حکمران اور صدور اب کئی ہفتوں سے اس بارے ميں غور کررہے ہيں کہ امريکی صدر کے مطالبے کا کيا جواب دیا جائے۔
بحرين کے ولي عہد نے واشنگٹن پوسٹ ميں شائع ہونے والے ايک مضمون ميں لکھا ہے کہ اسرائيليوں کے ساتھ اچھی طرح سے مکالمت نہيں کی گئی ہےاورانہيں عربوں کی امن پيشکش کا قائل کرنے کے لئے کافی کوشش نہيں کی گئی ہے۔عربوں کی امن پيشکش ميں کہا گيا ہے کہ اگر اسرائيل مقبوضہ عرب علاقے خالی کردے، ايک فلسطينی رياست قائم کردی جائےاور فلسطينی مہاجرين کے مسئلے کا ايک منصفانہ حل نکال ليا جائے توتمام عرب دنيا اسرائيل کے ساتھ معمول کے مطابق تعلقات قائم کرلے گی اورامن قائم ہوجائے گا۔
ابو ظبی کے اخبار The National کے حکيم نے کہا ہے: ’’ چاہے يہودی بستيوں کی تعمير بند کرنے کے صدر اوباما کے مطالبے کا اثراسرائيل پر ہو يا نہ ہو تاہم امريکی صدر کے لئے يہ کام آسان ہوجائے گا اگر وہ کانگريس کو دیکھا سکيں کہ اسرائيل پر دباؤ کے بدلے میں انہيں عربوں سے کچھ حاصل ہوا ہے‘‘۔
اس سلسلے ميں عرب ملکوں ميں اسرائيل کی فضائی کمپنی ال ايل کوعرب علاقوں پر پرواز کی اجازت دينے اور تجارتی دفاتر کھولنے پر غور کيا جارہا ہے تاہم عمان کے صحافی معين ربانی نے خبردار کيا ہے کہ اس وقت اسرائيل کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے کے آغاز کا مطلب خود اپنی امن پيشکش کی قدروقيمت کو کم کرنا ہے۔ انہوں نےکہا: ’’ شروع ميں اوباما يہ چاہتے تھے کہ اگر اسرائيل يہودی بستيوں کی تعمير روک دے تب عرب اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اقدامات کريں۔ ليکن اب يہ کہا جارہا ہے کہ اگر اسرائيل صرف جزوی طور پر اور عبوری مدت کے لئے ہی ان بستيوں کی تعمير روک دے تو پھربھی عرب تعلقات کو معمول پر لانے کے اقدامات شروع کرديں۔ اگر ميں ايک اسرائيلی سياستدان ہوتا تو ميں يہ سوچتا کہ عربوں کو کچھ دينا تو حماقت ہے کيونکہ وہ تو کچھ ملے بغيرہی اسرائيل کےساتھ تعلقات معمول پر لانے کی ابتدا کرنے پر تيار ہيں‘‘۔
عرب يہ سمجھتے ہیں کہ صدر اوباما، اپنے پيش رو بش کے برعکس امن کے قيام کے بارے ميں نيک نيت ہيں ليکن وہ ماضی کے تجربات کے باعث مشکوک ہيں۔ وہ اسرائيل کی طرف سے ٹھوس اقدامات ديکھنا چاہتے ہيں، مثلاً مقبوضہ عرب علاقوں کی واپسی۔
رپورٹ: کارسٹن کيون ٹوپ / شہاب احمد صديقی
ادارت: عاطف بلوچ