1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورتِ حال

24 ستمبر 2006

کل ہفتے کے روز فلسطینی صدر محمود عباس نے یہ اعلان کیا تھا کہ اُن کی اعتدال پسند فتح تحریک اور حماس تنظیم کے درمیان ایک قومی اتحاد حکومت کے قیام سے متعلق مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ اُس کی وجہ حماس تنظیم کا یہ موقف ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ تاہم فلسطینی علاقوں کو درپیش سنگین سیاسی اور معیشی مسائل پر قابو پانے کے لئے صدر محمود عباس آنے والے ہفتے کے دوران وزیرِاعظم اسماعیل ہانیہ سے ایک مرت

https://p.dw.com/p/DYJI
(دائیں سے) صدر محمود عباس اور فلسطینی وزیرِ اعظم اسمائیل ہانیہ
(دائیں سے) صدر محمود عباس اور فلسطینی وزیرِ اعظم اسمائیل ہانیہتصویر: AP

�ہ پھر ملاقات کرنے والے ہیں۔ اِس دوران وہ دیگر فلسطینی گروپوں سے بھی بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

وزیرِ اعظم اسماعیل ہانیہ نے اِن مذاکرات کی کامیابی کے لئے مشترکہ سیاسی کوششوں میں پیش رفت کی اُمید ظاہر کی ہے۔ اِس ماہ کے اوائل میں اِن دونوں رہنماﺅں کے درمیان قومی اتحاد حکومت کے قیام پر اتفاقِ رائے ہوا تھا، جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ حماس تنظیم شاید اب بلآخر تشدد کے خاتمے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مغربی ملکوں کے مطالبات کو منظور کرلے کی۔

اِس سال مارچ میں حماس کے زیرِ قیادت حکومت کے برسرِ اقتدار آنے پر مغربی ملکوں نے اپنی بیشتر امداد معطل کر دی جس کے بعد سے فلسطینی علاقوں کو ایک تباہ کن معیشی اور پھر سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ جون کے اواخر میں غزہ پٹی پر اسرائیلی فوجی آپریشن نے صورتِ حال مذید خراب کر دی۔ امریکہ اب بھی اِس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کی مالی امداد صرف اِسی صورت میں بحال کی جائے گی کہ وہ مغربی مطالبات کو تسلیم کرے۔ لیکن جمعے کے روز حماس نے نے واضع طور پر کہا تھا کہ مجوزہ قومی اتحاد حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی اور اُس کے بجائے حماس نے 10 سالہ فائر بندی کی پیشکش کی تھی جسے اسرائیل نے فوراً ہی مسترد کر دیا۔ مذاکرات کے ناکام ہوجانے کے بعد الفتح تحریک اور حماس کے حامی مسلح گروپوں کے درمیان جھڑپیں شدید ہوجانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

اُدھر لبنان میں صورتِ حال یہ ہے کہ اسرئیل آئندہ ہفتے کے دوران جنوبی لبنان سے اپنی بقیہ افواج کو واپس بُلانے کی تیاری کررہا ہے۔ کل ہفتے کے روز اقوامِ متحدہ کے امن دستوں کی پشت پناہی کے ساتھ400سے زائد لبنانی سپاہیوں کو اسرائیل اور لبنان کے سرحدی علاقے میں متعین کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ بین الاقوامی امن فوج اور لبنانی دستوں کے ساتھ اب بھی کئی متنازعہ معاملات کو طے کرنا باقی ہے۔ جبکہ لبنانی فوج نے آج اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اُس نے سرحد کے ساتھ ساتھ ایسی کئی چوکیوں پر اپنا کنٹرول مستحکم کر دیا ہے جو پہلے شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے قبضے میں تھیں۔ ۸۶۹۱ کے بعد سے یہ پہلی دفعہ ہے کہ لبنانی فوج اسرائیلی سرحد پر متعین کی گئی ہے۔ تب سے پہلے جنوبی لبنان پر فلسطینی جنگجووں کا کنٹرول تھا اور اُنھوں نے اِس علاقے کو الفتح تحریک کے نام پر فتح لینڈ کا نام دے رکھا تھا۔ پھر ۰۰۰۲ میں جب اسرائیلی افواج نے جنوبی لبنان سے دو عشروں سے زائد کا قبضہ ختم کیا تو یہ علاقہ حزب اللہ کے کنٹرول میں چلا گیا۔