1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

190811 Sarrazin-Debatte

22 اگست 2011

پچھلے سال اگست ميں جرمنی ميں ايک کتاب کی اشاعت سے ملک کی تارکين وطن سے متعلق پاليسی کے بارے ميں گرما گرم بحث چھڑ گئی تھی۔ کتاب کے مصنف نے مسلمانوں کو معاشرتی انضمام پرغيرآمادہ اور خطرہ قرار ديا تھا۔

https://p.dw.com/p/12LFv
زاراسن کی کتاب ’جرمنی خود کو ختم کر رہا ہے‘
زاراسن کی کتاب ’جرمنی خود کو ختم کر رہا ہے‘تصویر: DW

شہر بون کی کتابوں کی ايک دکان کا نام ہے، گوئٹے اور حافظ۔۔ شہر کے اس علاقے ميں زيادہ تر کم آمدنی والے آباد ہيں۔ دکان کے مالک افراسياب حيدريان اپنی دکان کو ثقافتوں کے درميان ايک پل سمجھتے ہيں۔ اُنہوں نے دکان کے نام ميں جرمنی اور ايران کے دو مشہور شاعروں کے نام اکٹھے کر ديے ہيں۔

جب اگست سن 2010 ميں تھيلو زاراسن کی کتاب ’جرمنی خود کو ختم کر رہا ہے‘ شائع ہوئی تو افراسياب نے بھی اس کتاب کو دکان ميں رکھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ خريدار زيادہ تر جرمن ہی تھے ليکن ايک دو تارکين وطن نے بھی يہ کتاب خريدی تھی۔ اب تک جرمنی ميں اس متنازعہ کتاب کی 13 لاکھ کاپياں فروخت ہو چکی ہيں۔

نائکہ فوروتان: ’’زاراسن کا غير ملکيوں سے خوف کے ساتھ کھيل‘‘
نائکہ فوروتان: ’’زاراسن کا غير ملکيوں سے خوف کے ساتھ کھيل‘‘تصویر: picture alliance/dpa

زاراسن نے اپنی کتاب ميں جرمنی کی ترک وطن کی پاليسی کی غلطيوں، مسلمان تارکين وطن کی معاشرتی انضمام پر غيرآمادگی اور اُن کے جرمنی کے مستقبل کے ليے خطرناک ہونے کے مفروضے پيش کيے تھے۔ زاراسن کے ناقدين نے اُن پر منفی بحث آرائی اور نسل پرستی کا الزام لگايا۔ ليکن افراسياب نے کہا: ’’اُنہوں نے اپنے خيالات کا اظہار کيا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان ميں سے کچھ غلط ہوں۔ انہيں يونہی رد کرنے کے بجائے پہلے ان پر غور کيا جانا چاہيے۔‘‘

برلن کی ہُمبولٹ يونيورسٹی کی ماہر سياسيات نائکہ فوروتان نے کتاب کے شائع ہونے کے تين ماہ کے دوران يہ مشاہدہ کيا:’’تارکين وطن اور خاص طور پر مسلمان تارکين وطن شروع ميں کچھ گُم سُم سے تھے، جيسے کہ وہ سر چھپا کر طوفان کے گذر جانے کا انتظار کر رہے ہوں۔‘‘

نائکہ کا کہنا ہے کہ بعد ميں تارکين وطن اور مسلم تارکين وطن ميں زيادہ خود اعتمادی پيدا ہو گئی۔ نائکہ فوروتان نے زاراسن کی کتاب کے تجزيے پر مبنی ايک کتاب تصنيف کی ہے، جس ميں زاراسن کے بعض دعووں کو سائنسی لحاظ سے غلط قرار ديا گيا ہے۔

تھيلو زاراسن
تھيلو زاراسنتصویر: picture-alliance/dpa

تاريخ دان اُلرش ہيربرٹ کا کہنا ہے کہ جرمنی ميں پچھلے چار عشروں سے يہ بحث جاری ہے کہ کيا غير ملکی معاشرے ميں شامل ہيں؟ کيا اُنہيں يہيں رہنا چاہيے يا چلے جانا چاہيے؟ کيا اُن کا طرز عمل اچھا ہے يا خراب؟ کيا ہميں مزيد تارکين وطن کی ضرورت ہے؟ ہيربرٹ نے کہا کہ اس کے بجائے يہ زيادہ واضح طور پر کہا جانا چاہيے کہ آپس ميں مل جل کر رہنے کے ليے کيا کچھ ضروری ہے۔

رپورٹ: کلاؤڈيا پريويسانوس / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں