مسجد اقصیٰ: تیسرے روز بھی جھڑپیں جاری
15 ستمبر 2015اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کے باہر واقع اس کمپاؤنڈ کو محفوظ بنانا چاہتی ہے، جہاں سے مبینہ طور پر یہودیوں کے نئے سال کے موقع پر سیاحوں کی آمد پر خلل ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اردن کی جماعت وقف، جو مسجد اقصیٰ کو کنٹرول کرتی ہے، کا کہنا ہے کہ پولیس مسجد کے احاطے میں کافی اندر تک داخل ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے جب کہ یہودی بھی اسے مقدس مانتے ہیں۔ دریں اثناء بین الاقوامی براداری کی جانب سے اپیل کی گئی ہے کہ فریقین امن سے رہیں اور کشیدگی بڑھانے سے اجتناب کریں۔ اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بان کی مون نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے تشدد کے خاتمے کی اپیل کی ہے۔
اردن کے شاہ عبداللہ نے اسرائیل کے اعمال کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات خطرے میں پڑ سکتے ہیں جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے ان اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔ اردن اور اسرائیل کے مابین امن معاہدہ سن 1994 میں طے پایا تھا۔ شاہ عبداللہ کا بغیر کسی کا نام لیے کہنا تھا، ’’اگر ایسا جاری رہا تو اردن کے پاس کوئی دوسری راہ نہیں بچے گی۔‘‘
فلسطینی صدر کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان حالیہ واقعات سے متعلق عباس اور شاہ عبداللہ کے مابین ٹیلی فون پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نےمنگل کی شام ایک ہنگامی وزارتی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
فلسطینی ہلال احمر کے ایمرجنسی یونٹ کے ڈائریکٹر امین ابو غزالی نے بتایا ہے کہ منگل کے روز 26 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی پولیس کی ترجمان لوبا سمری کے مطابق پانچ پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوئے ہیں جبکہ دو فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انتہائی قوم پرست یہودی اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالے ہوئے ہیں کہ انہیں اس کمپاؤنڈ میں عبادت کی اجازت دی جائے، جو مسجد اقصیٰ کے بالکل سامنے واقع ہے۔ مشرقی یروشلم کے پر قبضے کے بعد سے اسرائیل نے اس کمپاؤنڈ میں یہودیوں کو عبادت کرنے سے روکا ہوا ہے۔