مستعفی نہیں ہوں گا، جاپانی وزیر اعظم
11 مارچ 2011ناؤٹو کان نے جمعہ کو پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ وہ ڈونر جاپان میں آباد جنوبی کوریا کا شہری تھا، لیکن اس وقت وہ اس کی شہریت سے بے خبر تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔
جاپانی وزیر اعظم کا کہنا ہے، ’میں نے یہ سوچا تھا کہ وہ شخص جاپان کا شہری ہے۔ میں نے اپنے دفتر سے معلوم کیا اور پتہ چلا ہے کہ رقوم وصول ہوئی تھیں۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ شخص غیرملکی ہے تو میں سارے پیسے واپس کر دوں گا۔‘
جاپان میں سیاسی مہم کے لیے جانتے بوجھتے غیرملکیوں سے رقوم حاصل کرنا غیرقانونی ہے، جس کا مقصد سیاستدانوں کو غیرملکی اثر و رسوخ سے بچانا ہے۔ جاپان کے وزیر خارجہ Seiji Mahara نے رواں ماہ اسی بناء پر استعفیٰ دے دیا تھا کہ انہوں نے جنوبی کوریا کے ایک شہری سے رقوم حاصل کی تھیں۔
کان کو ایک غیر مقبول وزیر اعظم قرار دیا جاتا ہے، جن پر پہلے ہی مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے جبکہ وہ پارلیمنٹ میں 2011ء اور 2012ء کے لیے ایک ٹریلین ڈالر کے بجٹ کا بل منظور کرانے کی کوشش میں ہیں۔ تاہم اپوزیشن پارٹیاں ان کی اس کوشش کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں جبکہ ان پر قبل از وقت انتخابات منعقد کرانے کے لیے بھی دباؤ ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز نے تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کان اپنے مؤقف پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار ہیروتاکا فوتاتسوکی کا کہنا ہے، ’کان کو پہلے ہی ایک سو زخم لگے ہوئے ہیں اور رقوم حاصل کرنے کے معاملے سے ان کے زخموں کی تعداد ایک سو ایک ہو گئی ہے۔‘
فوتاتسوکی نے توقع ظاہر کی کہ کان کم از کم رواں برس جون تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔ مقامی میڈیا کے مطابق 2006ء اور 2009ء میں کان کی مہم کے لیے جاپان میں آباد جنوبی کوریا کے ایک شہری نے بارہ ہزار ڈالر دیے تھے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: شادی خان سیف