1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مذہب، ذات برادری کے نام پر ووٹ مانگنا غلط، بھارتی سپریم کورٹ

مقبول ملک
2 جنوری 2017

بھارتی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق سیاسی انتخابی امیدوار عوام سے مذہب یا ذات برادری کے نام پر ووٹ نہیں مانگ سکتے۔ عدالت نے کہا کہ ایسا کرنا مروجہ انتخابی قوانین کے تحت بدعنوانی کو ہوا دینے والی روایات کا حصہ ہے۔

https://p.dw.com/p/2V9l0
Wahlen in Indien 17.04.2014
تصویر: Reuters

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے پیر دو جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ملکی سپریم کورٹ نے آج اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ کوئی بھی انتخابی امیدوار، چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، رائے دہندگان سے اپنے لیے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مذہب یا ذات پات کے نظام کو استعمال کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

عدالتی حکم ایک طرف، انسانوں کا اہرام کھڑا کر دیا گیا
بھارت میں سیاست کے مذہب سے گٹھ جوڑ کا خاتمہ بظاہر ناممکن

’سیکولر بھارت کی خاطر‘ اورن دھتی رائے بھی سراپا احتجاج

ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ بھارت میں ملکی سطح پر ہندو قوم پسندوں کی حکومت ہے اور مرکز یا صوبوں میں عام انتخابات کے موقع پر اکثر سیاسی جماعتیں مختلف پارلیمانی حلقوں میں اپنے امیدواروں کا چناؤ ان کے مذہب یا ذات برادری کی بنیاد پر کرتی ہیں کیونکہ اس طرح منتخب کیے گئے سیاسی امیدوار اپنے اپنے علاقوں میں ووٹروں پر اثر انداز ہونے کے زیادہ اہل سمجھے جاتے ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ یہ حکم بھارتی ریاست اتر پردیش میں ہونے والے الیکشن سے چند ماہ قبل سنایا گیا ہے، جہاں کسی خاص مذہب یا ذات برادری سے تعلق سیاسی طور پر بالعموم بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اسی ریاست میں سولہویں صدی میں تعمیر کی گئی اور ماضی قریب میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے منہدم کر دی جانے والی ایودھیا کی بابری مسجد کی جگہ پر ایک ہندو مندر کی مجوزہ تعمیر بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین انتہائی متنازعہ جذباتی موضوع بن چکی ہے۔

ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ بھارتی ریاستوں پنجاب، اتر اکھنڈ، گوآ اور منی پور میں بھی جلد ہی صوبائی انتخابات ہونے والے ہیں۔

Bildergalerie 20 Jahre nach dem Herabreißen der Babri-Moschee
ایودھیا کی بابری مسجد کی جگہ پر ایک ہندو مندر کی مجوزہ تعمیر بھی اترا پردیش میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین انتہائی متنازعہ جذباتی موضوع بن چکی ہےتصویر: AFP/Getty Images

بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، جس کی 1.25 ارب کی آبادی میں قریب 80 فیصد ہندو اور 14.2 فیصد مسلمان ہیں جبکہ باقی ماندہ قریب چھ فیصد ملکی آبادی کئی دیگر مذاہب کے پیروکار شہریوں پر مشتمل ہے، جن میں مسیحی، سکھ، بدھ مت کے ماننے والے، جین عقیدے کے باشندے اور دوسری مذہبی اقلیتیں شامل ہیں۔

نئی دہلی میں بھارتی سپریم کورٹ نے دو جنوری کو اپنا جو فیصلہ سنایا، وہ کوئی متفقہ فیصلہ نہیں تھا بلکہ تین کے مقابلے میں چار ووٹوں سے کیا جانے والا ایک اکثریتی حکم تھا۔ ان چار ججوں میں بھارتی چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر بھی شامل تھے۔

سپریم کورٹ کے اس بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا، ’’الیکشن اور اس میں شرکت ایک سیکولر عوامی فعل ہے، جس میں مذہب کے کسی کردار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ اس فیصلے سے جن تین ججوں نے اختلاف کیا، ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ کسی عدالت کے بجائے ملکی پارلیمان کو کرنا چاہیے۔

انڈین سپریم کورٹ نے اپنا یہ فیصلہ کئی ایسی درخواستوں پر سنایا، جن میں سے ایک قانونی درخواست ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سیاستدان ابھیرام سنگھ کی طرف سے بھی دائر کی گئی تھی۔ ابھیرام سنگھ کی انتخابی کامیابی کو ممبئی کی ایک عدالت نے معطل کر رکھا ہے۔