1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محمود درویش کو سپردِ خاک کردیا گیا

14 اگست 2008

نو اگست کے روز محمود درویش نے امریکہ کے ایک ہسپتال میں وفات پائی۔ وہ عارضہِ قلب میں مبتلا تھے۔ ان کے جسدِ خاکی کو بدھ کے روز امریکہ سے ان کی محبوب سرزمین فلسطین پہنچایا گیا۔

https://p.dw.com/p/ExSo
فلسطین کے قومی شاعر محمود درویشتصویر: AP

’ہم اس ستارے سے وداع لے رہے ہیں جس سے ہم دل و جان سے محبت کرتے تھے۔ نو اگست اس کی موت کا دن ہے۔ نو اگست فلسطین کی تاریخ اور انسانی ثقافت میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ‘ یہ الفاظ ہیں فلسطین کے صدر محمود عباس کے فلسطین کے قومی شاعراور بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب محمود درویش کے لیے۔

Beisetzung Beerdigung Mahmud Darwisch
محمود درویش کو فلسطین کے اعلیٰ ترین اعزازات کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیاتصویر: AP


ہزاروں کی تعداد میں افراد بدھ کے روز محمود درویش کے جنازے میں شریک ہوئے ۔ محمود درویش فلسطین کے ایک مزاحمتی شاعر کے طور پر ابھرے اور ان کا تعلق بائیں بازو کی تحریکوں سے رہا۔ وہ تیسری دنیا کے عوام کے ایک نمائندہ شاعر بن کر ابھرے جن کے ہاں فلسطین پر ظلم پوری انسانیت پر ظلم کے برابر تھا۔


محمود درویش کی تدفین میں فلسطینی صدر سمیت فلسطین کے اعلیٰ ترین حکّام کے علاوہ چند اسرائیلی وزراء سمیت عرب ممالک کے حکّام نے شرکت کی۔ محمود عبّاس نے اس موقع پر محمود عبّاس کو خراجّ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کی کہانی محمود درویش کی کہانی ہے مگر درویش سے ملنے کے بعد یہ کہانی مکمل اور خوبصورت ہوگئی۔ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ وہ دن دور نہیں جب وہ پرچم جو درویش نے اپنی نظموں کے زریعے بلند کیا تھاوہ یروشلم کے مناروں، گرجائوں اور دیوارں پر لہرائے گا، یروشلم جو کہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا ناگزیر دارلحکومت ہے۔ محمود عبّاس نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ ایک روز محمود درویش کو یاسر عرفات کے ساتھ یروشلم میں دفنایا جائے گا۔


محمود درویش کے جسدِ خاکی کو رام اللہ کی سڑکوں پر ایک عظیم الشان قافلے کے زریعے ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچایا گیا۔ اس موقع پر محمود درویش کی مشہور نظم گائی گئی جس میں وہ اپنی ماں سے مخاطب ہیں۔

مجھے خواہش ہے اپنی ماں کی روٹی کی
ماں کے ہاتھ کی چائے کی
اس کے لمس کی۔۔۔
بچپن کی یادیں روز بہ روز مجھ میں توانا ہو رہی ہیں
اپنی موت کے وقت کیا میں اپنی زندگی کے قابل تھا؟
کیا میں اپنی ماں کے آنسوئوں کے قابل تھا؟