مبارک اب ایک خطرناک سکیورٹی رِسک: تبصرہ
11 فروری 2011ایک بار پھر تمام پیشین گوئیاں اور ساری اُمیدیں غلط ثابت ہوئیں۔ حسنی مبارک اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔ اگرچہ اِس بار اِس سلسلے میں افواہیں، جن کا مقصد جانے کیا تھا، غالباً براہِ راست مصری فوج اور اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں کی جانب سے پھیلائی گئی تھیں۔
یہاں تک کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے بھی مبارک کے استعفے کا امکان ظاہر کر رہی تھی۔ تاہم قاہرہ اور مصر کے دیگر شہروں کی سڑکوں پر احتجاج کرنے والے انسانوں کے ہجوم کی اُمیدیں ایک بار پھر خاک میں مل گئیں۔ اِن انسانوں کے اندر بے پناہ غصہ ہے، جو قابلِ فہم بھی ہے۔ یہ صدر اپنی قوم کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک غلیظ کھیل کھیل رہا ہے۔
مبارک نے کہا کہ وہ اپنے عہدے پر موجود رہیں گے لیکن اپنے اختیارات نائب صدر عمر سلیمان کو منتقل کر دیں گے۔ اُنہوں نے اصلاحات کا وعدہ کیا۔ اُنہوں نے خود کو ایک محب وطن اور استحکام کا ضامن قرار دیتے ہوئے سراہا۔ یہ سب کچھ مضحکہ خیز ہے اور انتہا درجے کی ڈھٹائی بھی۔ مصری عوام سماجی انصاف اور سیاسی استحصال بہت زیادہ برداشت کر چکے۔ یہ انسان آزادی اور جمہوریت کے خواہاں ہیں اور اُن کا حق بنتا ہے کہ اور حلقوں کے ساتھ ساتھ یورپ کی جانب سے بھی اُن کی ہر طرح سے تائید و حمایت کی جائے۔
مبارک کی ہَٹ دھرمی کے نتیجے میں احتجاجی تحریک کا ایک حصہ تشدد کی جانب بھی راغب ہو سکتا ہے۔ اِس کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں اور قابو سے باہر ہو سکتے ہیں، حتیٰ کہ ملک میں فوجی بغاوت بھی ہو سکتی ہے۔ مبارک، جو ایک طویل عرصے تک خود کو استحکام کا ضامن قرار دیتے رہے ہیں، اب زیادہ سے زیادہ ایک خطرناک ’سکیورٹی رِسک‘ کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں، نہ صرف مصر کے لیے بلکہ پورے خطّے کے لیے۔
تبصرہ: رائنر زولِش / امجد علی
ادارت: امتیاز احمد