مالدووا کے تنہا زندگی گزارتے بچے، ماں باپ کمانے چلے گئے
اپنے اعلانِ آزادی کے پچیس سال بعد بھی مالدووا آزاد اور خود مختار ملک بننے والی تمام سابق سوویت جمہوریاؤں میں سے غریب ترین ہے۔ بہت سے شہری روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جا چکے ہیں اور گھر پر اُن کے بچے اکیلے رہ گئے ہیں۔
پیچھے رہ گئے
تانیا نے پانچ سال پہلے اٹلی کا رُخ کیا۔ وہاں وہ بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور ماہانہ تقریباً 850 یورو کماتی ہے۔ پیچھے وطن میں اُس کی بیٹیاں بارہ سالہ اولگا، نو سالہ سابرینا اور آٹھ سالہ کیرولینا ایک مدت تک اکیلے رہتی رہیں۔
ماں کے ساتھ فون پر باتیں
تانیا کی بیٹیوں کا ٹیلیفون پر اٹلی میں اپنی ماں کے ساتھ رابطہ رہتا تھا۔ شروع میں اکیلے رہنے کے بعد یہ بچیاں اُن مختلف گھروں میں رہتی رہیں، جنہیں ان کی والدہ اٹلی سے ان کے خرچے کے لیے پیسے بھیجتی تھی۔
کھانے کی میز پر اکیلا پن
بارہ سالہ اولگا اب چسیناؤ میں اپنا اسکول ختم کر چکی ہے جبکہ سابرینا اور کیرولینا اٹلی میں ماں کے پاس جا چکی ہیں۔
دادی اماں کا ساتھ
گزرے سات برسوں میں کاتالینا کا زیادہ تر وقت ماں باپ کے بغیر ہی گزرا ہے، جو ملازمت کی تلاش میں پہلے ماسکو گئے اور پھر ورکنگ ویزا ملنے پر اٹلی منتقل ہو گئے۔ کاتالینا کی دادی پہلے ایک اور گاؤں میں رہتی تھی لیکن پھر وہ کاتالینا اور اُس کے بھائی وکٹر کے پاس چلی آئی۔
جدائی کے بعد ملن
اوتیلیا صرف بارہ برس کی تھی جب اُس کے والدین مالدووا چھوڑ گئے۔ اِس کے ماں اور باپ نے چار چار ہزار یورو دے کر اٹلی کے لیے قانونی دستاویزات حاصل کیں۔ اس ننھی سی بچی نے پھر پانچ برس تک اپنے ماں باپ کو نہ دیکھا اور دادی کے ساتھ رہتی رہی، جسے وہ ’ماں‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ ایک سال قبل ماں باپ کو اٹلی میں رہائش کا قانونی اجازت نامہ ملنے کے بعد یہ خاندان پھر سے اکٹھا ہو گیا۔
سخت محنت
لیلیا آٹھ سال قبل اپنے شوہر کے ساتھ مغربی یورپ چلی آئی۔ دونوں نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے لیے قرضہ لے کر جو پیسے ادا کیے تھے، اُس کی واپس ادائیگی کے لیے انہیں سخت محنت کرنا پڑی۔ تب اُن کی بیٹیاں نادیہ اور علینا بالترتیب نو اور چھ برس کی تھیں۔
دُور سے جانے والے پارسل
لیلیا اپنی بیٹیوں کو مہینے میں تین پارسل بھیجا کرتی تھی۔ اب یہ کنبہ پھر سے اکٹھا ہو گیا ہے لیکن یہ ملن بہت مہنگا پڑا ہے۔ دونوں بیٹیوں کے ویزوں کے لیے انہیں پندرہ پندرہ سو یورو دینا پڑے ہیں۔
بچپن ماں باپ کے بغیر
مالدووا کے ماں باپ کے بغیر پرورش پانے والے بچوں کی کہانی جرمن خاتون فوٹوگرافر آندریا ڈِیفن باخ نے اپنی کتاب ’والدین کے بغیر وطن‘ میں بیان کی ہے۔ جرمن زبان میں یہ باتصویر کتاب کیہرر پبلشرز نے شائع کی ہے۔