1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالا کنڈ میں نظام عدل ریگولیشن

16 فروری 2009

پاکستانی وزیراعظم گیلانی نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں اس امید کا اظہار کیا کہ مالاکنڈ میں نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ سے سوات اور دوسرے شورش زدہ علاقوں میں بھی امن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔

https://p.dw.com/p/GvOH
طالبان عسکریت پسندوں سے اس سےقبل بھی ایسے کئی معاہدے کئے جا چکے ہیںتصویر: AP

اس معاہدے پر ممکنہ امریکی ردعمل کے حوالے سے ایک سوال پر وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پہلے ہی امریکی عہدےداروں پر واضح کر چکی ہے کہ قیام امن کے لئے صرف فوجی طاقت کے استعمال پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

’’ آرمی ایکشن ہی تمام مسائل کا حل نہیں ہے، سوات کی بابت چند روز قبل ہماری جو میٹنگ ہوئی اس میں ہم نے اس آپشن کو استعمال کیا ہے کہ حکومت وہاں کے جرگوں کے ساتھ بات چیت کرے اور اگر یہ طریقہ کامیاب ہو گیا تو میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے لئے یہ فائدہ مند ہوگا۔‘‘

Yousaf Raza Gilani Pakistan Wahlen
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانیتصویر: AP

تجزیہ نگاروں کے خیال میں نظام عدل ریگولیشن سے فوری طور پر علاقہ میں امن کی توقعات وابستہ نہیں کی جانی چاہئیں اور اس حوالے سے صوفی محمدکے داماد اور تحریک طالبان سوات کے امیر مولانا فضل اللہ کا ردعمل انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔سیاسی تجزیہ نگار زاہد حسین کے بقول حکومت پہلے بھی طالبان سے اس طرح کے معاہدے کر چکی ہے تاہم اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے۔’’ابھی یہ اندازہ نہیں ہے کہ مولانا فضل اللہ جو کہ تحریک طالبان کے امیر ہیں ان کو یہ نظام عدل ریگولیشن قابل قبول ہوگا کہ نہیں اور کیا یہ لوگ ہتھیار ڈالیں گے کہ نہیں ڈالیں گے؟ میرے خیال میں یہ نظام عدل ریگولیشن کچھ وقت تو ضرور چلے گا لیکن زیادہ دیر تک یہ نہیں چل سکتا کیونکہ جب تک ہتھیار بند ہتھیار نہیں ڈالیں گے سوات میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘‘۔

معروف وکیل لطیف آفریدی کو بھی نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ سے دیر پا امن کے قیام کی امید نہیں۔ ان کے بقول مالاکنڈ میں پہلے بھی اسلامی قوانین ہی رائج تھے۔’’9941ء میں یہ شرعی نظام عدل ریگولیشن قائم ہوا پھر 1999ء میں اس میں ترامیم کی گئیں اور وہ جاری ہیں اس کے لئے کوئی نیا قاضی یا نیا سلسلہ نہیں بنا ان کے جو ججز ہیں ان کو ہی ایک اضافی نام دیا گیا ہے۔‘‘

بعض تجزیہ نگار سوات کے معاہدے کو حکومت کی جانب سے طالبان کے سامنے ہتھیار پھینکنے سے بھی تعبیر کر رہے ہیں اور ان کے خیال میں اس معاہدے سے سرحد کے دیگر علاقوں میں طالبان کے نئے مطالبات بھی جنم لے سکتے ہیں تاہم اس بات کا تعین آئندہ چند روز میں ہو جائے گا کہ سوات کے طالبان اس معاہدے پر عملی طور پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔