مالا کنڈ میں فوجی کارروائی ، ہزاروں شہری بے گھر
29 اپریل 2009دیر سے نقل مکانی کرنے والوں کے لئے بین الاقوامی اورعلاقائی فلاحی اداروں نے ریلیف کیمپ قائم کردیئے ہیں۔ الخدمت فاﺅنڈیشن کے ریلیف کیمپ کے سربراہ فضل محمود کا کہنا ہے کہ آپریشن سے تین لاکھ شہری متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے تیمرگرہ اور نواحی علاقوں میں بے گھر افراد کیلئے پانچ کیمپ بنائے ہیں جہاں اب تک سترہزار افرادکو رجسٹرڈ کیاگیا ہے۔ بے گھر ہونے والے افراد میں زیادہ ترخواتین اوربچے ہیں۔
ضلع دیر کے قومی جرگے کے رہنماء احمد غفور کاکہنا ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں بے گناہ افرادبری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آپریشن کے دوران کرفیو نافذ رہا جس نے بیمار اورزخمی ہونے والے شہریوں کے مسائل میں اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ آپریشن شروع کرنے کے لئے عوام کو کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی اور اس طرح آپریشن سے اجتماعی نقصان کابہت زیادہ خدشہ ہوتاہے۔ انہوں نے حکومت سے یہی مطالبہ کیا کہ آپریشن کوفوری طورپر بند کیاجائے ۔
اس سے قبل سوات میں آپریشن کی وجہ سے لاکھوں افراد نقل مکانی کرچکے ہیں جن میں زیادہ تر نے پشاور ، مردان ، اسلام آباد اورکراچی میں رہائش اختیار کی ہے۔ جبکہ دیر کے بعد مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع سوات کے بعد تیسرے ضلع بونیر میں آپریشن شروع کیاگیا۔ آپریشن کے دوسرے روز مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ بونیر سے نقل مکانی کرنے والوں نے سرحدی ضلع صوابی اور سرحد کے دوسرے بڑے شہر مردان میں پناہ لی ہے۔ مردان کے ضلعی انتظامیہ نے ہنگامی بنیادوں پر ان افرا دکے لئے امداد ی کیمپ قائم کرنے کا اعلان کیاہے۔ صوبہ سرحد کے مالاکنڈ ڈویژن کے تین اضلاع سے نقل مکانی کرنے والوں کے علاوہ قبائلی علاقوں، مومند ایجنسی باجوڑ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے عوام مبینہ امریکی ڈرون حملوں جبکہ سرحد کے مختلف اضلاع کے شہری عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوے ہیں۔
سرحد حکومت نے بے گھر ہونے والے ان افراد کے لئے گیارہ امدادی کیمپ قائم کیے ہیں جن میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ لوگ رہائش پذیر ہیں جبکہ کیمپوں سے باہر رشتہ داروں اور کرایہ کے مکانات میں رہائش پذیر لوگوں کی تعداد اسکے علاوہ ہے۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس اور دیگر عالمی اداروں نے دیر ، بونیر اور سوات سے بڑے پیمانے پر شہریوں کی نقل مکانی پر تشویش کااظہارکیاہے۔ باجوڑ اورمومند ایجنسی سے بے گھر ہونے والے افراد کیلئے پشاورکے نواحی علاقوں میں دوبڑے کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ تاہم وسائل کی کمی کی وجہ سے ان کیمپوں میں رہائش پذیر متاثرہ افراد اکثر سہولیات کے فقدان کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ جلوزئی میں قائم ریلیف کیمپ میں آٹھ ہزار سے زیادہ خاندانوں کو ٹہرایاگیا ہے۔ بے گھر ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں تاہم حکومت کی جانب سے ان افرا دکیلئے تاحال کوئی امدادی پروگرام شرو ع نہ ہوسکا ۔
بہبودآبادی کی صوبائی وزیر ستارہ ایاز نے بھی عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ صوبہ سرحد کے مختلف اضلاع اورقبائلی علاقوں سے بے گھر ہونے والے افرادکو خوراک ، پانی ، ادویات اوراشیاء ضرورت کی فراہمی میں سرحد حکومت کی مدد کریں انکا کہناہے : ” بے گھر ہونیوالے افراد بے پناہ مسائل کا سامنا کررہے ہیں“۔
ادھر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی لاکھوں کی تعداد میں بچوں اورخواتین کے بے گھر ہونے پر تشویش کااظہارکیاہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبہ سرحد میں پہلے سے اٹھارہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ جن کی رضا کارانہ واپسی کیلئے UNHCRنے چند روز قبل اقدامات شروع کردیئے ہیں ۔