مالاکنڈ آپریشن: فوجی اور سیاسی قیادت میں ہم آہنگی کی کوشش
14 مئی 2009جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کر رہی ہے اور شدت پسندوں کی طرف سے ارکان پارلیمنٹ کو دی گئی دھمکیوں کے پیش نظر قبائلی علاقوں اور عسکریت پسندوں کے زیر اثر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
دریں اثناء پارلیمانی امور کے وزیر ڈاکٹر بابر اعوان نے بتایا کہ پیر کو بلائی گئی کُل جماعتی کانفرنس کا مقصد اس اہم مسئلے پر سب کو اعتماد میں لینا ہے: "ہم نے دعوت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ان کو میں اطلاع دے رہا ہوں اور دو طرح کی پارٹیوں کو دعوت دی جا رہی ہے۔ ایک وہ جن کی پارلیمنٹ کے اندر نمائندگی ہے اور دوسری وہ جماعتیں جو پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔‘‘
بعض اپوزیشن جماعتوں نے اگرچہ آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے فیصلے کو تاخیری اقدام قرار دیا ہے تاہم اکثر نے اس کی حمایت کی ہے۔ اسی دوران پاکستانی فوج کے ترجمان میجرجنرل اطہر عباس نے سوات آپریشن کی صورتحال پر بریفنگ میں اس خبر کو غلط اور بے بنیاد قرار دیاجس کے مطابق طالبان اور ان کے حامی صوبہ سرحد کے 38 فیصدحصے پر قابض ہیں۔
جنرل اطہر عباس کا کہنا تھا کہ پاک فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف مکمل طور پر ملکی وسائل استعمال کرتے ہوئے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں: "اس آپریشن کی مکمل پلاننگ اور ہر قسم کے وسائل ہمارے اپنے ہیں۔ اس میں کسی قسم کی کوئی مدد یا کسی قسم کی ہدایت بیرونی طاقتوں سے نہیں لی جا رہیں۔‘‘
اُدھر حکومت نے بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کے لئے آئندہ ہفتے ڈونرز کانفرنس بلانے کا بھی اعلان کیا ہے تا کہ بروقت امداد کے ذریعے متاثرین کو گرم موسم کی شدت اور اشیائے ضرورت کی قلت سے بچایا جا سکے۔