مالاکنڈ آپریشن: حکومت کی مشکلات میں اضافہ
11 مئی 2009اسی سبب پیر کے روز حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کھلے عام سوات آپریشن پر اختلافات کا اظہار کیا جب کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے بھی حکومت کی طرف سے سوات آپریشن پر اعتماد میں نہ لیے جانے کا شکوہ کیا۔ اسمبلی میں تقریر کے دوران چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حکومت یک طرفہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور بقول ان کے قوم کو تمام حقائق سے آگاہ نہیں کیا جا رہا۔
ادھر اسی دوران امریکی انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹیٹیوٹ کی طرف سے پاکستان کے حوالے سے جاری کئے گئے تازہ ترین سروے میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ملک کے 81 فی صد عوام کی رائے میں حکومتی پالیسیوں کا رخ غلط ہے۔ سروے کے مطابق عوام کی اکثریت خراب اقتصادی صورتحال اور دہشتگردی سے نالاں ہے۔ تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ حکومت سیکیورٹی اور اقتصادی بدحالی ایسے امور کے سدباب کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور دہشتگردوں کو ہر صورت میں شکست دی جائے گی۔
مبصرین کے مطابق سوات اور مالا کنڈ میں جاری فوجی کارروائی کے باوجود عسکریت پسند جس مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے عوام بالعموم اور اسلام آباد میں موجود غیر ملکی سفارتکار بالخصوص اب بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ اس تشویش کی وجہ یہ سوال ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں پاکستان کی پیشہ وارانہ افواج کے لئے بالآخر مولوی فضل اللہ اور بیت اللہ محسود ایسے ان رہنمائوں کا خاتمہ کیوں ممکن نہیں ہے جو کہ دنیا بھر میں ریاست پاکستان کے لئے خطرے کی بڑی علامت سمجھے جا رہے ہیں۔
غیر ملکی تجزیہ نگار بھی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ سوات معاہدے کے تحت فضل اللہ کا غیر قانونی ایف ایم ریڈیو کیوں بند نہ کیا گیا۔