1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالاکنڈفوجی آپریشن: بعض علاقوں میں مزاحمت

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور، ادارت: شامل شمس20 مئی 2009

مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع سوات، دیر اور بونیر کے بعض علاقوں میں سیکورٹی فورسز کے جنگی طیاروں نے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں عسکیت پسندوں کے متعدد ٹھکانے تباہ اور بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/HuGm
سوات کے کئی علاقوں میں فوج نے پیش رفت کی ہے جب کہ عسکریت پسند دشوار گذار پہاڑی راستوں سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیںتصویر: Abdul Sabooh

بونیر میں کارروائی کے دوران 80 عسکریت پسند مارے گئے جب کہ اطلاعات کے مطابق مزید ہلاکتوں کا بھی خدشتہ ہے۔ لڑائی کے دوران سیکورٹی فورسز کا ایک اہلکار ہلاک اور 11 زخمی ہوگئے۔

سوات میں رحیم آباد اور قمبر کے علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر جیٹ طیاروں سے بمباری کی گئی جب کہ زمینی فوج کی مینگورہ سمیت تخت بند، بلوگرام اور بانڈئی میں عسکریت پسندوں کے ساتھ شدید جھڑپیں جاری ہیں۔

BIldergalerie Flüchtlingskrise im Swattal Pakistanische Soldaten
چھبیس اپریل سے اب تک 200 عسکریت پسند مارے گئے ہیں اور اس دوران 14سیکیورٹی اہلکار ہلاک جب کہ 30 زخمی ہوئے ہیں، فوجی زرائعتصویر: picture-alliance/ dpa

سوات کے کئی علاقوں میں فوج نے پیش رفت کی ہے جب کہ عسکریت پسند دشوار گذار پہاڑی راستوں سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فوج کے دستے ان راستوں پر ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔

سوات طالبان کے تربیتی مرکز پیوچار اور تحصیل مٹہ پر فوج نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور یہاں چھپے عسکریت پسندوں کی تلاش شروع کردی ہے۔ سوات سمیت ضلع بونیر میں بھی سیکورٹی فورسز نے ڈگر سے پیر بابا، شل بانڈی اور آمنہ ور کی جانب پیش قدمی کی ہے جب کہ گوکندرہ، غازی خانہ اور سلطان وس میں بدستور طالبان کا قبضہ ہے جہاں سے فوج کو شدید مزاحمت کا سامناہے۔ ان علاقوں پر سیکورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں سے بمباری کی ہے۔

ضلع بونیر میں جن علاقوں سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا گیا وہاں کے شہریوں کو واپس آنے اور اپنی تیار فصلیں کاٹنے کی اجازت دی گئی ہے جس پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ واپس جا رہے ہیں۔

Pakistan Flash-Galerie
شورش ذدہ علاقوں سے اب بھی نقل مکانی جاری ہےتصویر: AP

مالاکنڈ ڈویژن کے تیسرے ضلعے لوئر دیر میں سیکورٹی فورسز کی عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ جاری ہے۔ فوج نے میدان اور نواحی علاقوں میں ان کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ ضلع دیر میں آپریشن کے انچارج برگیڈئیر عمل زارہ کا کہناہے کہ چھبیس اپریل سے اب تک 200 عسکریت پسند مارے گئے ہیں اور اس دوران 14سیکیورٹی اہلکار ہلاک جب کہ 30 زخمی ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوئر دیر کے کئی علاقوں کو عسکریت پسندوں سے صاف کردیا گیا ہے۔

لوئر دیر کے متعدد علاقوں میں مسلسل کرفیو کی وجہ سے اشیائے ضرورت سمیت بجلی اور گیس کی بندش نے عوام کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ یہاں کے لوگ نقل مکانی کے لئے کرفیو میں نرمی کے منتظر ہیں۔ دوسری جانب نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ ملک بھر کی طرح غیر ملکی ادارے بھی متاثرین کی امداد کر رہے ہیں تاہم ان کی مشکلات میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔

Pakistan Flash-Galerie
نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 25 لاکھ 8 ہزار 77 ہوگئی ہے جو دنیا میں اندرون ملک ہجرت کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہےتصویر: AP

سرحد حکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بیرون ملک سے ملنے والی امداد براہ راست صوبہ سرحد کو دی جائے تاکہ متاثرین کی فوری امداد کی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 25 لاکھ 8 ہزار 77 ہوگئی ہے جو دنیا میں اندرون ملک ہجرت کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں پانچ فیصد لوگ پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نکالنے اور ان تک خوراک پہچانے کیلے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

مالاکنڈ ڈویژن سمیت قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کافیصلہ کرنے کے بعد وزیرستان سے بھی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ لدھا اور سروکئی نامی علاقوں سے سینکڑوں خاندانوں نے نقل مکانی کی ہے۔ یہ لوگ سرحد ی ضلع ٹانک اورڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گئے ہیں جہاں حکومت نے ان کے لیے دو کیمپ قائم کیے ہیں۔ آپریشن کی وجہ سے جہاں عام لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں وہاں دہشت گردی میں ملوث غیر ملکی بھی شہری علاقوں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم سیکورٹی فورسز نے پشاور اور مہمند ایجنسی کی سرحد پر پانچ افراد جب کہ اپر دیر میں 5 غیر ملکیوں کو حراست میں لیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں