1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مائیک مولن پاکستان اور افغانستان میں وضاحتی مشن پر

25 جون 2010

امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین ایڈ مرل مائیک مولن آج 25 جون کو افغانستان پہنچ رہے ہیں۔ وہ اِس بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں اتحادی اَفواج کے کمانڈر کو کیوں تبدیل کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/O3FC
ایڈ مرل مائیک مولنتصویر: picture-alliance/ dpa

مائیک مولن جمعرات کو پاکستان اور افغانستان کے دورے پر روانہ ہوئے تھے۔ وہ اِن ملکوں کی قیادت کو ایک بار پھر یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں اتحادی افواج کے سپریم کمانڈر کے عہدے سے جنرل سٹینلے میک کرسٹل کی سبکدوشی اور اُن کی جگہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی تعیناتی سے طالبان اور القاعدہ کے خلاف جاری جنگ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں مولن نے کہا:’’میرا پیغام واضح ہو گا۔ ہماری حکمتِ عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہمارے مشن میں کچھ بھی نہیں بدلے گا۔‘‘

مولن کے اِس بیان سے ایک ہی روز قبل میک کرسٹل کو ایک امریکی جریدے کے ساتھ ایک ہنگامہ خیز انٹرویو میں واشنگٹن حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے بارے میں حقارت آمیز الفاظ استعمال کرنے پر اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

مولن کے ہمراہ اِسی پریس کانفرنس میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا کہ میک کرسٹل کا طرزِ عمل ’ناقابلِ قبول‘ تھا اور نئے کمانڈر کے عہدے پر صدر اوباما کی جانب سے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی تعیناتی ’اِس ناخوشگوار صورتِ حال میں بہترین ممکنہ انتخاب‘ ہے۔

USA Afghanistan General David Petraeus Porträt
افغانستان میں نئے کمانڈر ڈیوڈ پیٹریاستصویر: AP

گیٹس نے اِس بات پر اصرار کیا کہ افغان جنگ میں پیشرفت ہو رہی ہے۔ اُن کا یہ بیان اوباما انتظامیہ کی جانب سے ایک ایسے وقت میں افغانستان مشن کا دفاع کرنے کی کوشش ہے، جب محاذِ جنگ سے پریشان کن خبریں آ رہی ہیں اور اتحادی اور امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ گیٹس نے کہا:’’میرا نہیں خیال کہ ہم وہاں کسی دلدل میں پھنس گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم کچھ پیشرفت کر پا رہے ہیں۔ یہ پیشرفت ہمارے اندازوں کے مقابلے میں سست رفتار ہے اور وہاں کی صورتِ حال زیادہ سخت بھی ہے۔‘‘

گیٹس نے یہ بھی کہا کہ وہ کمان کی اِس تبدیلی کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور امریکہ کے دوستوں یا دشمنوں کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ جنگ کے سلسلے میں امریکہ کے عزائم میں نرمی آ گئی ہے۔

واشنگٹن ہی میں اپنے روسی ہم منصب دمتری میدویدیف کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر باراک اوباما نے پیٹریاس کی تقرری کے حوالے سےکہا کہ اِس امریکی جنرل کو نہ صرف عراق میں غیر معمولی تجربہ حاصل ہو چکا ہے بلکہ وہ افغان صدر حامد کرزئی سمیت دیگر فریقوں کو قریب سے جانتے بھی ہیں۔

دوسری جانب طالبان نے کہا ہے کہ اُنہیں اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ افغانستان میں فوجی مشنوں کی قیادت کس کے پاس ہے۔ ایک نامعلوم مقام سے طالبان کے ترجمان یوسف احمدی نے ٹیلی فون پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا:’’میک کرسٹل ہو یا پیٹریاس، ہمیں اِس کی کوئی پروا نہیں۔ ہم حملہ آور فوجوں کے خلاف تب تک لڑتے رہیں گے، جب تک وہ یہاں سے نکل نہیں جاتیں۔‘‘

کابل میں افغان اور غیر ملکی سفارت کاروں نے میک کرسٹل کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کے اقدام پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور جنگ کا رُخ بدل دینے کے سلسلے میں اُن کی کوششوں کو سراہا ہے۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: کشور مصطفےٰ