1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مائیکرو کریڈٹ سرمایہ کاری خطرات سے دوچار

14 جنوری 2011

مائیکرو کریڈٹ کے نام سے سرمایہ کاری کا عمل شروع کر کے بنگلہ دیش کے محمد یونس نے عالمی شہرت حاصل کی۔ یہ انقلابی اسکیم متعارف کروانے پر انہیں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ اب یہ منصوبہ اسکینڈلز اور تنازعات کی زد میں ہے۔

https://p.dw.com/p/zxMs
بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل ورکرتصویر: picture-alliance/GUDONG

مبصرین کا خیال ہے کہ سن 1990 کی دہائی میں انتہائی کم مالیت کے قرضے فراہم کرنے کی جو اسکیم بنگلہ دیشی کے ماہر اقتصادیات محمد یونس نے شروع کی تھی وہ انقلاب آفرین تھی۔ اس کی شاندار کامیابی کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ اس کا ایک اعتراف سن 2006 میں ان کو دیا جانے والا امن کا نوبل انعام ہے۔ مائیکرو کریڈٹ سرمایہ کاری کو غربت میں کمی کرنے کا ایک اہم عمل قرار دیا گیا تھا۔

اس سرمایہ کاری کے اثرات بھارت میں بھی اسی دور میں کم و بیش دیکھے گئے۔ خاص طور پر 1990ء کی دہائی میں جب اقتصادی آزادی کو مرکزی حکومت نے اپنا شعار بنایا، لیکن اب یہی غربت کم کرنے کا عمل تنازعات اور اسکینڈلز کی زد میں ہے۔ بعض مبصرین کے خیال میں اس کریڈٹ سسٹم کی موت واقع ہونے والی ہے۔

مائیکرو کریڈٹ سرمایہ کاری پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں سرمایہ دینے والے ادارے منافع کے چکروں میں رہتے ہوئے سود کی شرح کو اتنا بڑھا چکے ہیں کہ اب اس سے خوف آنے لگا ہے۔ بھارت کے جنوبی صوبہ آندھرا پردیش میں حالیہ ہفتوں میں کم از کم اٹھاسی افراد نے خود کشی کا ارتکاب کیا ہے اور اس کی وجہ کریڈٹ دینے والی تنظیموں کے ملازمین کی جانب سے ڈرانے دھمکانے کا عمل قرار دی جاتی ہے۔ ایک تامل خاتون وملا کا کہنا ہے، ’’مائیکرو کریڈٹ سسٹم کے تحت لئے گئے قرضے کی ماہانہ قسطیں ادا کرنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ پہلی اقساط ختم کرنے کے لئے دوسرے ادارے سے قرضہ لینا پڑا تھا۔’’

Friedensnobelpreis für Mohammed Junus
نوبل انعام یافتہ محمد یونستصویر: AP

اب پچپن سالہ وملا کے خاندان کی ماہانہ آمدنی صرف ایک سو یورو کے قریب ہے اور اس پر مائیکرو کریڈٹ قرضے کا بوجھ سات سو یورو کے برابر پہنچ چکا ہے، جو ہر ماہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سات سال قبل وملا پر قرضے کا حجم اتنابڑھا نہیں تھا جتنا اس وقت ہو چکا ہے۔ وملا نے اس بوجھ کو ختم کرنے کے لیے دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار کرنے کی کوشش بھی کی لیکن قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ وملا جیسی ہزاروں دوسری عورتیں ہیں، جنہیں قرضوں کے بوجھ کا سامنا ہے۔ اور یہ تمام لوگ خود کو بندگلی میں محسوس کرتے ہیں۔

آندھرا پردیش اس صورت حال سے بہت متاثر دکھائی دیتا ہے۔ اس صوبے میں مائیکرو کریڈٹ فنانسنگ کا بڑا نیٹ ورک فعال ہے۔ قرضے پر سودی شرح بہت زیادہ بڑھائی جا چکی ہے۔ اب صوبائی حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے مختلف اقسام کی پابندیاں متعارف تو ضرورکروا دی ہیں لیکن یہ بھی شاید کم محسوس کی جا رہی ہیں۔ مائیکرو کریڈٹ سسٹم کے تلے آئے ہوئے لوگ اپنی نیند اجاڑ چکے ہیں۔

مبصرین حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کریڈٹ سسٹم کے لئے شفافیت کے ساتھ ساتھ سخت قانون سازی کی ضرورت بھی ہے تاکہ منافع کی دوڑ کو ختم کیا جا سکے اور لوگ راحت پا سکیں۔

رپورٹ: پیا چندر ورکر ⁄ عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں