1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کے ساتھ امریکی سفارتی تعلقات بحال

16 مئی 2006

واشنگٹن حکومت کی جانب سے لیبیا کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے اعلان کے ساتھ دونوںملکوں کے ایک دوسرے کے قریب آنے کا وہ عمل خوشگوار انجام کو پہنچ گیاہے، جس کاسلسلہ چند سال پہلے شروع ہوا تھا۔ یہ عمل اِس لئے ممکن ہو سکا کہ لیبیا نے سکاٹ لینڈ کے قصبے Lockerbie کے اوپر ایک امریکی مسافر بردار طیارے پر بم حملے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری قبول کر لی تھی اور مرنے والے مسافروں کے لواحقین کو زرِ تلافی دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ت

https://p.dw.com/p/DYLH
لیبیا کے صدر معمر القذافی
لیبیا کے صدر معمر القذافیتصویر: AP

ھی۔ واشنگٹن سے Carsten Schmiester کا بھیجا ہوا جائزہ

بُش حکومت غالباً اب حتمی طور پر اِس بات کی قائل ہو گئی ہے کہ امریکہ کا سابقہ دشمن معمر القذافی اب ایک شرپسند کی بجائے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی کا رُوپ دھار چکا ہے۔

امریکہ اور لیبیا کے تعلقات کے معمول پرآنے کے عمل میں آخری اقدام کے طور پر وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس نے تحریری طور پر یہ اعلان کیا کہ شمالی افریقہ کے اِس ملک کا نام دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے ملکوں کی فہرست سے خارج کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ 25 برسوں سے زیادہ عرصے کے بعد اب پھرسے معمول کے سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں گے۔

معمر القذافی نے تین سال پہلے اپنا ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا پروگرام روک دیا تھا، جس کے فوری بعد امریکہ نے لیبیا کے خلاف عاید زیادہ تر پابندیاں ختم کر دی تھیں۔

تازہ اعلان کے بعد لیبیا کے لئے پھر سے لامحدود ترقیاتی امداد اور اِس ملک کے ساتھ ہتھیاروں کے سودوں اور تیل کے کاروبار کا سلسلہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انڈر اسٹیٹ سیکریٹری Paula DeSutter نے اِس امریکی فیصلے کے جواز میں کہا کہ لیبیا کا بڑے پیمانے پر ہلاکت خیز ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام بین الاقوامی مبصرین کی آنکھوں کے سامنے اور امریکی اور برطانوی ماہرین کی موجودگی میں ختم کیا گیا اور یہ کہ یہ سب کچھ شفاف طریقے سے عمل میں لایا گیا۔

صدر بُش اور وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس کی یقینا خواہش ہو گی کہ اِس کہانی کو دُنیا کے دوسرے حصوں میں بھی دہرایا جائے۔ لیبیا نہ بھی ہو تو امریکہ کی نظر میں دُنیا میں کئی دوسری شرپسند ریاستیں بھی ہیں، جنہیں انڈر اسٹیٹ سیکریٹری David Welsh کے بقول لیبیا کی تقلید کرنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ لیبیا اُن دوسرے ممالک کے لئے ایک نمونہ بن سکتا ہے، جہاں امریکہ تبدیلی کے لئے زور دے رہا ہے، جیسے کہ ایران یا شمالی کوریا۔

امریکی حکومت کی نظروں میں قذافی نے ثابت کر دیا ہے کہ ایک وقت کی مجرم ریاست بھی بین الاقوامی برادری کی صفوں میں واپس آ سکتی ہے، خواہ لیبیا کے حملہ آوروں کو دیگر جرائم کے علاوہ برلن کی ڈِسکو تھیک La Belle پر اُس حملے کے لئے بھی ذمہ دار کیوں نہ قرار دیا جاتا ہو، جس کے نتیجے میں سن 1986ء میں دو امریکی فوجی اور ایک ترک خاتون ہلاک ہو گئے تھے۔

اِس کے دو ہی سال بعد امریکی فضائی کمپنی PanAm کا ایک جمبو جیٹ طیارہ سکاٹ لینڈ میں Lockerbie کے مقام پر دھماکے سے پھٹ کر تباہ ہو گیا۔ اِس واقعے میں 270 افراد ہلاک ہوئے، قصور وار ایک بار پھر لیبیا کی خفیہ سروِس کو ٹھہرایا گیا۔

لیبیا نے اِس واقعے کی ذمہ داری کہیں 2003ء میں قبول کی اور لواحقین کو زرِ تلافی کی ادائیگی پر بھی راضی ہوا۔ اِنہی لواحقین میں ایک مسافر کی بیوی Stefany Bernstein بھی شامل ہے، جو بہت سے امریکی سیاستدانوں کے برعکس امریکہ اور لیبیا کے درمیان کشیدہ تعلقات کے اِس خوشگوار انجام سے خوش نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ امریکی حکومت کا تازہ فیصلہ لیبیا کے عوام کے لئے کسی فتح کے مترادِف نہیں ہے اور اِس فیصلے سے لیبیا میں جمہوریت کے قیام کے سلسلے میں بھی کوئی مدد نہیں ہو گی۔ وہ کہتی ہیں کہ لیبیا کے عوام تو بدستور مصائب کا شکار ہیں۔ اب اِن عوام کو استحصال کا نشانہ بنانے والے عناصر کو کھلی چھٹی مل گئی ہے، اب وہ پھر اپنا تیل فروخت کر سکتے ہیں اور جو ہتھیار چاہیں، خرید سکتے ہیں۔

بلا شبہ اب اِن تعلقات کی بحالی کا سب سے زیادہ فائدہ تیل کا کاروبار کرنے والی امریکی کمپنیوں کو ہو گا، جو اب آسانی کے ساتھ لیبیا کے تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری کر سکتی ہیں اور تیل کی پرانی ہو چکی پیداواری تنصیبات کو جدید دَور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکتی ہیں۔