لندن بم دھماکے، سکیورٹی اداروں پر تنقید غلط
6 مئی 2011جمعہ کو عدالتی کمیشن نے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ان حملوں کے حوالے سے تنظیمی یا انفرادی سطح پر کوئی قصوروار نہیں ہے لیکن سکیورٹی کے حوالے سے معیارات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ سات جولائی 2005ء میں لندن کے ٹرانسپورٹ سسٹم پر ہوئے القاعدہ طرز کے ان خود کش حملوں کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے اس کیس کی انکوائری کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیا ان حملوں کو روکنے کے لیے تنظیمی یا انفرادی سطح پر کوئی غلطی تو نہیں ہوئی۔ اس کیس کی سماعت کرنے والی جج Heather Hallet نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امدادی ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ بھی جاتیں تو بھی ہلاک ہونے والے ان 52 افراد کی جانیں نہیں بچائی جا سکتی تھیں،’میں اس فضیے پر مطمئن ہوں کہ اگر امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ جاتیں تو بھی ہلاک ہونے والوں کو نہیں بچایا جا سکتا تھا‘۔
اس عدالتی کمیشن نے پانچ ماہ تک ان حملوں کے بارے میں مکمل تحقیقات کے بعد یہ فیصلہ سنایا ہے۔ جب یہ فیصلہ سنایا گیا تو رائل کورٹ آف جسٹس کا کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس خصوصی عدالت نے لندن بم دھماکوں کے حوالے سے کئی تجاویز بھی مرتب کی ہیں تاکہ مستقبل میں کسی ایسے حادثے کی صورت میں انسانی جانیں بچائی جا سکیں۔
مجموعی طور پر 73 دن اس مقدمے کی سماعت ہوئی اور اس دوران 309 گواہ پیش ہوئے اورمزید 197 بیانات بھی قلمبند کیے گئے، جبکہ ان سماعتوں کے نتیجے میں 34 ہزار صفحات پر مشتمل ایک دستاویز تیار ہوئی۔ عدالتی کمیشن کے مطابق ان حملوں کی وجہ سے ملکی سکیورٹی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا غلط ہو گا۔
دوسری طرف ہوم سیکریٹری ٹریسا مئے نے کہا ہے کہ حکومت کمیشن کی طرف سے پیش کی گئی تجاویز کو غور سے دیکھے گی، ’بدقسمتی سے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس دنیا کو خطرات سے پاک بنا دیا جائے۔ ہم اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ دہشت گرد دوبارہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ تاہم ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے‘۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امتیاز احمد