لمبی دُوری پر پائی جانے والی کہکشاؤں تک رسائی
26 جون 2010اس کے برعکس کائنات میں پھیلے فلکیاتی اجسام اور کہکشاؤں کو براہ راست دیکھنے کے لئے خلائی دوربین کا استعمال کیا جاتا ہے جو دراصل دور کی چیزوں کو قریب کرکے دکھاتی ہے جبکہ زیادہ فاصلے پر پائی جانے والی کہکشاؤں کو دیکھنے کے لئے عام طور پر ریڈیو ٹیلی سکوپس استعمال کی جاتی ہیں۔ اس وقت دنیا بھر کے علاوہ خلا میں بھی کئی ریڈیو ٹیلی سکوپس موجود ہیں۔ ہالینڈ کے سائنسدانوں نے 12 جون کو ایک نئی ریڈیو ٹیلی سکوپ کا افتتاح کرتے ہوئے اسے دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو ٹیلی سکوپ قرار دیا ہے۔
حال ہی میں یورپی ملک ہالینڈ کے سائنسدانوں نے دنیا کی اب تک کی سب سے بڑی ریڈیو ٹیلی سکوپ کا افتتاح کیا۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ ریڈیو ٹیلی سکوپ ایسے کمزور سگنلز بھی موصول کرسکتی ہے جو ’بگ بینگ‘ کے وقت خلا میں بکھرے ہوں گے۔
اس ٹیلی سکوپ کو LOFAR کا نام دیا گیا ہے جو کہ Low Frequency Array کا مخفف ہے۔ ہالینڈ میں فلکیاتی تعلیم کے ملکی ادارے ’ریڈیو ایسٹرونومی انسٹیٹیوٹ‘ کے ماہر فیمکے بوئکہورسٹ (Femke Boekhorst) کے مطابق روایتی ریڈیو دوربین کی طرح ایک بڑی ڈش کے بجائے LOFAR کے 25 ہزار چھوٹے انٹینا ہیں جن کی لمبائی آدھ میٹر سے لے کر دو میٹر تک بنتی ہے۔
اس ریڈیو دوربین کا مرکزی حصہ تو ہالینڈ کے شمال مشرقی شہر آسن میں ہے جبکہ اس کے انٹینے ہالینڈ بھر کے علاوہ جرمنی، سویڈن، فرانس اور برطانیہ میں موجود ہیں۔
بوئکہورسٹ نے اس ریڈیو ٹیلی سکوپ کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ آج دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو ٹیلی سکوپ کا افتتاح کیا جارہا ہے، جس کا قطر ایک ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر مزید کہا کہ اس ٹیلی سکوپ سے حاصل کردہ معلومات سے کائنات کی ابتدا یعنی ’بگ بینگ‘ کے بارے میں اہم تفصیلات حاصل ہوسکتی ہیں۔
اس ریڈیو ٹیلی سکوپ سے حاصل شدہ ڈیٹا کو ہالینڈ ہی کی گرونِنگن یونیورسٹی میں موجود ایک سپر کمپیوٹر کے ذریعے پروسیس کرنے کے بعد ریڈیو ایسٹرونومی انسٹیٹیوٹ کو فراہم کیا جائے گا، جہاں ماہرین ان اعدادوشمار سے نتائج اخذ کریں گے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک